• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومتیں ملک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی وضع کیا کرتی ہیںجسے نیشنل ایکشن پلان کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر جعلی کرنسی ،کالے دھن اور دہشتگردی کیلئے غیر ملکی فنڈنگ کا تدارک کرنے کیلئے مودی سرکار نے اچانک آدھی رات کو پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ متروک قرار دے ڈالے۔اس فیصلے پر بھارتی وزیراعظم کو غلیظ ترین گالیاں دی گئیں ،سیاسی مخالفین نے آڑے ہاتھوں لیا لیکن مودی جی نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔چین کے مشرقی علاقوں میں سڑکوں اور کارخانوں کا جال بچھا ہے اس لئے وہاں خوشحالی ہے مگر مغربی علاقوں میں ترقی نہ ہونے کے باعث غربت و بے روزگاری نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔چین کو بخوبی علم تھا کہ پورے ملک میں ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع فراہم کئے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی لہٰذا جب چینی حکام سر جوڑ کر بیٹھے تو اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان طے کیا گیا کہ اقتصادی راہداریوں کے ذریعے ان علاقوں کو وسط ایشیائی ریاستوں سے منسلک کر کے یورپ سے جوڑ دیا جائے۔اب اس منصوبے پر نہایت تیزی سے عملدرآمد ہو رہا ہے۔ سری لنکا میں کئی سال تک تامل باغیوں نے ادھم مچائے رکھا،دہشتگردی کا جن بے قابو دکھائی دے رہا تھا مگر پھر حکومت اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ جب تک بندوق اٹھانے والوں کو ریاستی طاقت سے کچلا نہیں جاتا تب تک ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔راہ بہت کٹھن تھی مگر نیشنل ایکشن پلان کے تحت متعین کئے گئے راستے پر پیہم چلتے رہنے سے پائیدار امن کی منزل آہی گئی۔یوں تو پاکستان کو بیشمار مسائل کا سامنا ہے مگر دہشتگردی کا قضیہ نائن الیون کے بعد مسلسل درد سر بنا رہا ہے۔جب آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ ہوا تو ہمارے فیصلہ سازوں نے بھی دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ایک حکمت عملی مرتب کی جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا۔ جب بھی دہشتگردی کے خلاف ترتیب دیئے گئے نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں سوچتا ہوں تو 1999ء میں بنائی گئی ہالی وڈکی فلم ’’آرلنگٹن روڈ‘‘ کا خیال آتا ہے ۔
سنسنی خیز لمحات سے بھرپور اس فلم کا مرکزی کردار جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پڑھانے والا ایک پروفیسر ہے جس کی بیوی ایف بی آئی ایجنٹ ہے اور ایک آپریشن کے دوران مر جاتی ہے۔فلم کا آغاز ایک زخمی بچے سے ہوتا ہے جس کی حالت تشویشناک ہے ۔پروفیسر مائیکل اس بچے کو اسپتال پہنچاتا ہے اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچہ تو اس کے ہمسایوں کا ہے۔اس بچے کے باپ الیور لینگ سے مائیکل کی دوستی ہو جاتی ہے۔اس دوران ایک اہم سرکاری عمارت میں بم دھماکہ ہوتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ بم دھماکہ ایک الیکٹریشن نے کیا جو خود بھی اس دھماکے میں مارا گیا۔پروفیسر مائیکل یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے سوال اٹھاتا ہے کہ یہ ایک شخص کی کارستانی کیسے ہو سکتی ہے۔وہ کہتا ہے کہ جب تک ہم اصل دشمن کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوتے ،یہ سلسلہ تھمنے والانہیں۔ مائیکل ایک دن اپنے ہمسائے الیور کے گھر جاتا ہے تووہاں اسے ایک عمارت کا نقشہ دیکھ کر شک ہوتا ہے ۔تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس ہمسائے کا اصل نام ولیم فیمینور ہے اور اسے 16سال کی عمر میں بم دھماکہ کرنے کے الزام میں سزا ہو چکی ہے۔جب مائیکل کے ہمسائے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصلیت سامنے آچکی ہے تو پہلے وہ اس کی گرل فرینڈ کو مروا کر حادثے کا رنگ دیتا ہے اور پھر پروفیسر کے بیٹے کو یرغمال بنا لیتا ہے۔کہانی میں ڈرامائی رنگ تب آتا ہے جب پروفیسر کو بھنک پڑتی ہے کہ کوریئر کمپنی کی ایک گاڑی میں دھماکہ خیز مواد ہے اور اس سے ایف بی آئی کے دفتر کو اڑانے کا منصوبہ ہے۔پروفیسر مائیکل جان ہتھیلی پر رکھ کر اس گاڑی کا تعاقب کرتے ہوئے ایف بی آئی کے دفتر کی پارکنگ میں داخل ہو جاتا ہے ۔لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ دہشتگرد کس قدر چالاک ہیں۔دراصل پروفیسر کی سرخ رنگ کی گاڑی میں ہی دھماکہ خیز مواد رکھا گیا ہوتا ہے۔ریموٹ کنٹرول کے ذریعے بم پھٹتا ہے۔ ایف بی آئی ایجنٹس کے ساتھ ہی پروفیسر کے بھی پرخچے اُڑ جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی خبر چلتی ہے کہ ایک پروفیسر جس کی بیوی ایف بی آئی ایجنٹ تھی اور ایک آپریشن میں ماری گئی ،اس کے جنونی شوہر نے بیوی کی موت کا بدلا لینے کیلئے دھماکہ کیا۔تحقیقاتی اداروں کا خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ گتھی سلجھا لی ہے اور حملہ آور بھی ساتھ ہی مارا گیا ہے لیکن ماسٹر مائنڈ کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا ۔ہمارے ہاں بھی آئے روز بم دھماکے ہوتے ہیں ۔خودکش حملہ آور مارا جاتا ہے اور اس کے بعد کسی دہشتگرد تنظیم کی طرف سے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی جاتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ بس دشمن کی نشان دہی ہو گئی۔حالانکہ حقیقی دشمن کوسوں دور ہوتا ہے اور اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔جب کوئی تنظیم ایک سے زائد مرتبہ بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے تو ہمارے ادارے اپنی فہرستیں کھنگال کر دیکھتے ہیں کہ آیا یہ تنظیم کالعدم ہے یا نہیں۔اگر یہ تنظیم ان کی فہرستوں میں شامل نہ ہو تو جھٹ سے اسے کالعدم قرار دیدیا جاتا ہے تاکہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔جب تنظیم ہی کالعدم ہو جائے گی تو پھر دہشتگردی کی وارداتیں کیسے ہو نگی؟یہ ہے وہ تیر بہدف نسخہ جس سے ہم دہشتگردی کا قلع قمع کرنے نکلے ہیں۔
اگرمیری طرح آپ کا بھی یہی خیال ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تو وزارت داخلہ کے زیر انتظام وفاقی ادارے ـ’’نیکٹا‘‘ کی ویب سائٹ کھول کر دیکھیں ،امید ہے بڑی حد تک تشفی ہو جائے گی۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا یہ عالم ہے کہ 2001ء میں کالعدم تنظیموں کی تعداد 2تھی جو اب بڑھ کر 63 ہو چکی ہے۔جب کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر اور پھر خضدار میں شاہ نورانی کی درگاہ پر دھماکہ ہوا تو نیکٹا نے فعالیت اور فرض شناسی کا بھرپورمظاہرہ کرتے ہوئے جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی کو بھی کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ڈیٹرجنٹ کے کمرشل آپ ٹی وی پر دیکھتے ہونگے جن میںداغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہیں بچے گا۔نیکٹا والے بھی وہی کمرشل دیکھنے کے بعد دہشتگرد تنظیموں پر کالعدم کا ٹھپہ لگاتے ہیں اور گنگناتے ہیں’’اب کوئی دہشتگرد بچ کر دکھائے‘‘




.
تازہ ترین