• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کا شاہی قلعہ روشنیوں کے نور میں نہایا ہوا تھا ، شاہی قلعہ اور اردگرد کا سارا ماحول ہی بہت دلکش لگ رہا تھا، اسی شاہی قلعے کے سامنے لگا ئی گئی کر سیو ں پر ترکی کے صدررجب طیب اردوان ، انکی اہلیہ اورانکے ہمر ا ہ آ ئے ہو ئے د یگر مہما ن، و زیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور وز یر اعلیٰ پنجا ب میا ں شہبا ز شر یف اور ملک کی معروف شخصیات کے ساتھ براجمان تھے اور پرلطف عشایئے میں چنے جانے والے کھانوں کو تناول کررہے تھے کہ شاہی قلعے کے پہلو میں بنائے گئےا سٹیج پر ملک کے معروف فنکار باری باری آکر ماحول کو اپنی بہترین پرفارمنس سے خوشگوار بنارہے تھے ، ان فنکاروں میں ملک کے معروف وائلن نواز رئیس خان بھی شامل تھے، رئیس خان مرحوم ستار نواز استاد فتح علی خان کے صاحبزادے ہیں ، استاد فتح علی خان کا تعلق اسی پٹیالہ سے ہے جہاں سے استاد امانت علی خان کا خاندان پاکستان شفٹ ہوا تھا، استاد فتح علی خان کو 81؁ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس ملا تھا ،جبکہ ان کے صاحبزادے رئیس خان بھی اپنے فن میں یکتا ہونے کی وجہ سے پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کرچکے ہیں جبکہ رئیس خان کے ایک بھائی ستا ر نو از استاد نفیس خان کو بھی اپنے فن کی وجہ سے تمغہ امتیاز مل چکا ہے ،وائلن نواز استاد رئیس خان جب بھی وائلن کی تاروں کو حرکت دیتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تاریں کسی ساز کی دھن بجا نے کی بجائے بول کر الفاظ کی ادائیگی کررہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور خصوصاً اسلام آباد میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس سے لیکر کسی بھی سفارت خانے تک اور سر کا ری ثقا فتی محفلو ں سے لے کر نجی محفلو ں تک، کوئی بھی تقریب ہو وہ استاد رئیس خان کے وائلن کے مدھر سروں کے بغیر ادھوری اور بے رنگ محسو س ہوتی ہے، لیکن لاہور کے شاہی قلعہ کے سامنے روشنیوں سے نہائے ہوئےا سٹیج اور ایک خوبصورت اوربھرپور ساؤنڈ سسٹم پر اپنے وائلن کو حرکت دیتے ہوئے استا د رئیس خا ن نے سوہنی دھرتی کی دھن کو بجایا تو حسین ماحول کے آس پاس کے نظاروں نے بھی اس دھن کا ساتھ دینا شروع کردیا ، اور پھر جب معروف طبلہ نواز سجاد حسین عرف ڈاڈو کے طبلے کی دھمک اور استا د رئیس خان کے وائلن کی تا روں نے فلم انارکلی کے لئے نور جہاں کے گائے ہوئے ایک خوبصورت گانے
صدا ہوں اپنے پیار کی
جہاں سے بے نیاز ہوں
کسی پہ جو نہ کھل سکے
وہ زندگی کا رازہوں‘‘
کی دھن کو بجا یا تودر حقیقت ماحول پر ایک سحر طاری ہوگیا اور ایسا محسو س ہو رہا تھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے حکمران بھی اس گانے کے بول کا عکس پیش کررہے تھے کہ
جہاں سے بے نیاز ہوں
کسی پہ جو نہ کھل سکے
وہ زندگی کا راز ہوں
بوہے باریاں
تے آواں گی ہوا بن کے ‘‘
کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا اور ’’ بوہے باریاں‘‘ کو اچھوتے انداز میں پیش کرتے ہوئے حدیقہ کیانی نے بلھے شاہ کے پنجا بی کے ایک محسورکن بند کو بھی بڑے حسین انداز میں اسی نغمے کے اند ر تڑ کا لگا تے ہو ئے پیش کیا، حکمرانوں کے سامنے یہ اشعار اپنے اندر بہت کچھ سموئے ہوئے تھے لیکن معلوم نہیں کہ سامنے بیٹھے حکمرانوں نے بھی ان اشعار پر غور کیا ہے یا نہیں لیکن اپنے قارئین کیلئے ضرور لکھوں گا جو حدیقہ نے اپنے انداز میں گائے تھے۔
ویکھ وے بندیا
اسماناں تے اُڈدے پنچھی
ویکھ تے سہی کی کردے نے
نہ او کردے رزق ذخیرہ
نہ او بھکے مردے نے
کدی کسے نے اڑدے پنچھی
بھکے مردے ویکھے نے
بندے ہی کردے رزق ذخیرہ
بندے ہی بھکے مردے نے



.
تازہ ترین