• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی زمانے میں شفیق مرزا سے پاک ٹی ہائوس میں ملاقات ہوا کرتی تھی، مگر اس کو ملاقات کہنا شاید مناسب نہیں کہ وہ اکثر کسی میز پر اکیلے بیٹھے نظر آتے، کبھی کچھ دوستوں کے ہجوم میں بھی دکھائی دیتے۔ ان سے دعا سلام ہوتی ، دو ایک بار ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع بھی ملا۔ میانہ قد، گورا چٹا خوبصورت گول مٹول سا چہرہ اور گفتگو میں علمیت اور شگفتگی کا امتزاج۔ میں ان دنوں جوان تھا اور مرزا صاحب جوان تر۔ یہ وہ دور تھا جب ٹی ہائوس جائے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ وہاں اپنے ہم عصروں سے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں اور اپنے سینئرز سے بھی۔ سینئر الگ میز پر ہوتے اور ہم جونیئر الگ میز پر۔ ہم کبھی کبھی ان کے پاس بھی جابیٹھتے تھے جس پر وہ اور ہم دونوں خوش ہوتے تاہم دونوں کی اپنی اپنی دنیائیں تھیں مگر جب حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس ہوتا تو محمودو ایاز ایک ساتھ بیٹھے ہوتے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب سینئرز نے پاک ٹی ہائوس سے کنارا کشی اختیار کی اور ہم لوگوں کا آنا جانا بھی کم ہوگیا۔ تب احساس ہوا کہ یہ سینئرز کی کشش ہی تھی جو ہمیں وہاں کھینچ لے جاتی تھی۔ اس دوران حلقہ ارباب ذوق بھی اجڑ پجڑ گیا۔ اس عظیم تنظیم کے ایسے ایسے سیکرٹری منتخب ہوئے جنہیں ادب تخلیق کرنا تو کجابات کرنے کا سلیقہ بھی نہ تھا۔ ٹی ہائوس پر سب سے برا وقت تو اس وقت آیا جب اس میں ٹائروں کی دکان کھل گئی، مگر سب سے خوبصورت لمحات وہ تھے جب اس کی پرانی وضع قطع قائم رکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے اس کی زیبائش و آرائش کا بیڑا اٹھایا اور اس کی تکمیل پر ادب اور ادیب اپنی محبت کے سبب اور میری فرمائش پر وزیر اعظم نواز شریف یہاں آئےاور ادیبوں دانشوروں کے ساتھ دو گھنٹے گزارے۔ یوں پاک ٹی ہائوس دوبارہ آباد ہوگیا مگر اب یہاں صرف نوجوان ادیب اور دانشور یا یونیورسٹیوں کے ادب دوست طالبعلم نظر آتے ہیں، حلقہ ارباب ذوق بھی فعال بھی ہوگیا ، مگر؎
وے صورتیں اپنی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
انتظار حسین، انجم رومانی،شہرت بخاری اور اعجاز بٹالوی اور بہت سے چاند اور ستارے تھے جو اب وہاں نظر نہیں آتے۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ میں سولہ برس پیشتر روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں آگیا۔یہاں شفیق مرزا سے’’ملاقاتوں‘‘ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ شفیق مرزا اور انور قدوائی ایک ہی کمرے میں بیٹھتے تھے۔ یہ کمرہ محبوب کی کمر جتنا ہی ہے۔ یہاں دو دفعہ مرزا صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان ملاقاتوں میں ان سے کھل کر گپ شپ کا موقع ملا۔ تب پتہ چلا کہ ادب سے تو ان کا تعلق ہے ہی ان کا گہرا مطالعہ اسلام اور دیگر ادیان کے حوالے سے ہے، سنجیدہ باتوں کے درمیان بھی ان کے چہرے کی مسکراہٹ برقرار رہتی تھی اور درمیان درمیان میں کھل کر قہقہہ بھی لگاتے تھے۔ میں محفل آرائی کا بہت شوقین ہوں چنانچہ بہانے بہانے دوستوں کو کسی ریستوران میں جمع کرتا رہتا ہوں۔ مرزا صاحب دو تین بار ان محفلوں میں بھی آئے لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ کم آمیز تھے، اگر ان سے کوئی کھلتا تھا تو وہ بھی اس سے کھل جاتے تھے، ورنہ خاموش بیٹھے دوستوں کی گپ شپ سے محظوظ ہوتے، تاہم ان سے ’’اصل ملاقاتوں‘‘ کی نوعیت کچھ اور طرح کی تھی۔ میں کالم لکھ کر اپنے پی ا ے کے سپرد کرتا جو فیکس کردیتا، اگر کسی دن کالم لیٹ ہوتا تو فون پر مرزا صاحب کی خوشگوار آواز سنائی دیتی ’’قاسمی صاحب کالم نہیں آیا‘‘ اور میں لکھنوی لہجے میں کہتا’’بس آیا چاہتا ہے‘‘ جس پر وہ ایک زور دار قہقہہ لگاتے۔ کبھی کوئی لفظ پڑھا نہ جاتا تو وہ فون پر پوچھتے، سچی بات یہ ہے کہ میں اپنا لکھا ہوا خود بھی نہیں پڑھ سکتا، میں خطاطی میں ایک ’’نئی طرز‘‘ کا موجد ہوں، جس کا نام طے ہونا ابھی باقی ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ آپ نے فلاں لفظ لکھا ہے جو غلط ہے، اصل لفظ یہ ہےاور میں فوراً سر تسلیم خم کردیتا کہ جانتا تھا یہ بات کہنے والا لفظوں کی سرشت سے واقف ہے۔ بس برسہا برس سے ملاقاتیں اسی نوعیت کی تھیں یا کبھی کبھار فارغ وقت میں ان سے فون پر ہلکی پھلکی گپ شپ ہوجاتی تھی۔
البتہ گزشتہ دو ہفتوں سے میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا، ان کی جگہ انور قدوائی صاحب یا عملے کے کسی دوسرے فرد سے بات ہوجاتی۔ اس پر مجھے تجسس ہوا ، پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ کوئی موٹر سائیکل سوار مرزا صاحب کو ٹکر مار کر فرار ہوگیا، وہ اسپتال میں کوما کی حالت میں رہے اور پھر اسی حالت میں انتقال کرگئے۔ میرے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہوگئے، صرف ان کے سانحہ کے حوالے سے نہیں بلکہ ارباب صحافت کی اس بے نیازی کی وجہ سے بھی جو کارکنوں کے ضمن میں اکثر سامنے آتی ہے۔ میں نے تین دن قبل یہ خبر اسلام آباد میں جنگ میں پڑھی، اس کے علاوہ کہیں نظر نہیں آئی۔ ایک اخباری کارکن جو دانشور بھی ہو، دوسرے اخبارات کے لئے پرایا کیوں ہوجاتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے کارکنوں کی موت کو اتنا ارزاں کیوں سمجھتے ہیں؟ یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ شفیق مرزا کو بھی اس کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ ایک بار ان سے اس موضوع پر بات ہوئی تو اس سنجیدہ گفتگو کے دوران ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور پھر اس کے ساتھ ہی ان کے چہرے پر ایسی خوفناک سی سنجیدگی طاری ہوئی کہ میں ڈر گیا۔
شفیق مرزا کو شاید علم تھا کہ ایک دن ان کے ساتھ بھی یہی ہونا ہے۔


.
تازہ ترین