• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاڑکانہ کیڈٹ کالج کے تیرہ سالہ طالب علم محمد احمد مشوری پر تشدد جسے "کارپوریل پنشمنٹ" کہا جاتا ہے کی لرزہ اندام تصاویر ملک تو کیا یہاں امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کےمیڈیا اور ہر چھوٹے بڑے اخبار اور سوشل میڈیا پر متواتر آرہی ہیں۔ تیرہ سالہ معصوم محمد احمد مشوری جسے اپنے نچلے متوسط طبقے کے والدین نے کئی والدین کی طرح ایک سہانے خواب کے خوبصورت پرندوں کی طرح گھر سے دور پڑھنے کو بھیجا تھا۔ ابھی اسے گرمیوں کی چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد کیڈٹ کالج لاڑکانہ پڑھنے کو گئے ہوئے بمشکل ہفتہ ہی ہوا تھا کہ دس اگست کو وہ ایمبولینس میں نیم کوما کی حالت میں زخمی کالج سے لاڑکانہ اسپتال پہنچایا گیا۔ کیڈٹ کالج کے ہائوس انچارج نے لڑکے کے والد کو ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ انکے بچے کی طبیعت خراب ہے وہ اسپتال پہنچيں۔ اسکے بعد لاڑکانہ اور کراچی کے بڑے بڑے اسپتالوں میں بچہ نیم کوما کی حالت میں لیے اس والد کی کہانی انکی ہی زبانی جو کچھ الیکٹرانک اور پرنٹ چاہے سوشل میڈیا پر آئی وہ کوئی بھی صاحب اولاد اور صاحب درد انسان کی برداشت سماعت اور حوصلوں سے باہر ہے۔
’’ریاست ہوگی ماں کی جیسی‘‘
چوہدری اعتزاز احسن، یہ کیسی ماں کی سی ریاست ہے کہ جو اس بچے پر’’کارپوریل پنشمنٹ‘‘ کی صورت بہیمانہ تشدد کے ذمہ داروںکو سزا تو کیا ان پر انگلی اٹھاتے ہوئے بھی لوگوں کو ڈرائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دس اگست سے لیکر ماہ نومبر تک اس معصوم کے ساتھ ایک کیڈٹ کالج میں ہونیوالے ظلم کی خبر تک کسی چینل یا اخبار میں نہیں آئی۔ کیا کیڈٹ اسی طرح بنائے جاتے ہیں؟ نوجوان محمد احمد مشوری کی گردن تین جگہوں سے ٹوٹی ہوئی ہے اور اسکی سانس کی نالی کا اسکی جان سے رشتہ منقطع نہیں تو معطل بتایا جاتا ہے۔ اسکے اسکول کے ساتھیوں نے محمد احمد کے گھر والوں کو بتایا اور اب یہ سارا لاڑکانہ بتاتا ہے کہ ڈرل کے میدان پر ایک استاد نے بچوں کو گیٹ سے لیکر ہاسٹل گیٹ تک پکے فرش پر قلابازیاں کھانے کی سزا دی تھی جس میں تیرہ سالہ محمد احمد کی گردن پر بری طرح ضرب آئی۔ بقول بچےکے والد ڈاکٹر نے تصدیق کی کہ بچے پر تشدد ہوا لگتا ہے۔ کاش کوئی اس بچے کی اور اسکی والدین کی حالت دیکھتا جس سے دل پسیج جاتا ہے-
بچے کے والد نے متعلقہ ایس ایچ موہن جو دڑو (موہن جو ڈارو نہیں یہ موہن جو دڑو ہے ) سے لیکر جنرل راحیل شریف تک اپنے بچے اور خاندان کیساتھ انصاف کی عرضیاں بھیجیں جواب ندارد۔بچے پر ضرب کاری کے ذمہ داران کیلئے شاید آپریشن ضرب عضب نہیں کہ ابتک سندھ کے اس روجانی اور معتبر خاندان کے ساتھ انصاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
کہتے ہیں یہ صرف سندھ کے کالجوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ سندھ کے کالج جو آپ نے دیکھا ہے کہ ملک کی تقدیر بدلنے اور بگاڑنے والے کتنے تناسب سے پیدا کیے ہیں۔یہ ایک اور موضوع ہے۔
’’ماضی میں کیڈٹ کالج میں ملازمت کے حوالے سے مجھے یہ خدشہ تھا کہ کبھی یہ مسئلہ مصیبت بننا ہے۔ لیکن یہ بچوں کو متشدد سزائیں کلاس یا کمروں میں نہیں ڈرل کے میدان میں دی جاتی ہیں ‘‘ سندھ کے ایک کیڈٹ کالج میں کام کرنےوالے ایک سابق ہائوس انچارج کا کہنا تھا۔ کیڈٹ کالج سندھ کے محکمہ تعلیم کےکنٹرول میں نہیں ہیں۔ لیکن سندھ کے سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کا حال مارپیٹ، جسمانی اور ذہنی تشدد کے حوالوں سے سندھ پولیس تھانوں سے مختلف نہیں ہے۔ استاد امام بخش کا مولا بخش اور تھانوں پر رکھے سچ پترے عرف آجا مورے بالما میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ اب بھی بہت ساری جگہوں پر یہ تصور لغو اور مدہ خارج نہیں ہے جب بچوں کے والدین استاد کو کہا کرتے تھے کہ ’’ہڈیاں ہماری چمڑی (جلد) تمہاری۔ ‘‘
حالانکہ سندھ اسمبلی نے سرکاری اسکولوں یا تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا جرم قرار دیتےہوئے قانون منظور کیا تھا جس میں ایک سال تک سزائے قید ہے۔ اسی طرح پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بچوں کے تحفظ حقوق اور ترقی کی عالمی قرارداد کا بھی ایک دستخطی ہے۔
ادھر صائمہ جعفری جو خود سندھ یونیورسٹی جامشورو میں انگریزی ادب کی استاد ہیں بحیثیت استاد اور والدین کے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: " نجی اسکولوں کی صورتحال بھی کوئی بہتر نہیں۔ جہاں بچوں پر جسمانی سزا آئے دن کا معمول ہے۔ بچوں کے والدین کو ایسی ہر خبر سے دور رکھا جاتا ہے۔ ذہنی تشدد اسکے علاوہ ہے جب بچوں کو انکے والدین کی مالی حیثیت اور آمدنی کے طعنے دئیے جاتے ہیں۔ بچوں کے سامنے انکے والدین کو ہتک آمیز ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ نجی اسکولوں کے مالکان کو اگر شکایت کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو والدین کو ان تک رسائی سے روکا جاتا ہے۔ مالکان کے بجائے خبطی قسم کے سینئر لوگوں کو انچارج بنا کر ملوایا جاتا ہے۔ ادھر اساتذہ اور استانیوں کی نہ کوئی تربیت ہے نہ زیادہ تعلیم۔ چھوٹے چھوٹے معاوضوں پر مقرر کردہ یہ استانیاں تو بنیادی اچھے رویوں سے بھی پیدل ہوتی ہيں۔" صائمہ جعفری کہتی ہیں "ایسے نجی اسکول نوٹ چھاپنے کے ضرب خانے اور مافیا ہیں۔"
میڈيا و سوشل میڈیا پر کیڈٹ کالج لاڑکانہ کے بچے کے معاملے پر بہت کچھ آنے کے بعد اب سندھ کے وزیر اعلیٰ نے ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ بنانے اور بچے کا ملک چـاہے ضرورت پڑنے پر غیر ملک علاج کروانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن بچے پر جسمانی سزا کے جوابدران کے متعلق کوئی حکم یا عرض نہیں کہ وہ ظاہر ہے کہ سندھ کے محکمہ تعلیم یا وزیر اعلیٰ کے دائرہ اختیار میں نہ آتے ہونگے۔
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
تم جو کہتے ہو تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
تو پس عزیزو یہ سندھ کی درسگاہیں ہیں کہ جبر و استبداد کے دنوں میں لاہور کے شاہی قلعے۔


.
تازہ ترین