• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بڑے لوگ پیدا ہونا بند ہوگئے ہیں۔ اس بات کی تصدیق ہم نہیں کرسکتے۔ اس کی صداقت آنے والا وقت طے کرے گا۔ ہاں وہ ایک بات جس کی تصدیق کرنا کچھ مشکل نہیں وہ یہ ہے کہ بڑے لوگ ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں۔ ایک نسل کی نسل اپنی طبعی عمر نمٹا رہی ہے۔ چل چلاؤ کا عالم ہے۔ آئے دن دل دکھانے والی خبریں آتی ہیں۔جانے والوں میں کتنے ہی ایسے تھے جن سے ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ کتنے ہی ایسے تھے جنہیں ہم دور دور سے سراہتے تھے۔ان کا ہونا بے شمار اعلیٰ تخلیقات کے ہونے کا سبب بنا تھا۔ ان کی تحریریں، ان کی باتیں، ان کی تصویریں تک ہم مداحوں کی طرح پڑھا، سنا اور دیکھا کرتے تھے۔ وہ تھے توجی کیسا بہلا رہتا تھا۔ کیسی آس بندھی رہتی تھی کہ اب کوئی تازہ کارنامہ وارد ہوگا۔ نئے شگوفے کھلیں گے، نئی دریافتیں ہوںگی۔
پھر ایک بات اور بھی تھی۔ جن سے نہیں ملے تھے ذہن نے ان کی تصویریں بنا لی تھیں۔ خیال میں کہیں ان کے نقش ابھرے ہوئے تھے جو سارے کے سارے بھلے اور دل کش تھے۔ ایک بار تو یہ بھی ہوا کہ شفیق الرحمن سے ملاقات ہونے ہی والی تھی۔ایساشگفتہ ادب تخلیق کرنے والے گنتی کے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ میں نے ان کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ پڑھا تھا۔ ہوا یہ کہ اسلام آباد میں ایک بہت بڑی بین الاقوامی کانفرنس تھی جہاں میں بھی موجو د تھااور ہمارے دوست ابدال بیلا بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ بھی اعلیٰ ادب کے خالق ہیں۔ باتوں باتوں میں شفیق الرحمان کا ذکر آیا۔ کہنے لگے کہ آئیے چلتے ہیں، آپ کو ان سے ملوا کر لاتے ہیں۔ میں ٹھٹھک گیا۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ شفیق الرحمان سے کیسے ملوں گا۔ الجھن یہ تھی کہ ذہن نے اند ر ہی اندر ان کی جو تصویر بنا رکھی ہے، اس کی دل کشی میں فرق نہ آجائے۔ میں نے جی کڑا کرکے جانے سے انکار کر دیا۔ پھر یہ ہوا کہ شفیق الرحمان بھی گزر گئے۔ بہت سے لوگو ں نے کہا کہ تم ملاقات کر لیتے تو کیا بگڑ جاتا۔ میں نے کہا کہ وہ کھلی رنگت، وہ بلا کی ذہین آنکھیں، وہ چوڑا چکلا بدن اور وہ رضیہ سے ٹینس کھیلنے والا سجیلا جوان، اس کا سارا حلیہ ہی بگڑ جاتا۔
دکھ اس بات کا ہے کہ ایسے لوگوں کا نعم البدل نظر نہیں آتا۔وہ جو پرانا جملہ ہے کہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا مشکل ہے، وہ سچ لگنے لگا ہے۔
یوں بھی میری ذاتی رائے ہے کہ اردو ادب پر بُرا وقت آپڑا ہے۔جن لوگوں نے گزرے ہوئے دنوں کا غور سے مشاہدہ کیا ہے، اس زوال کے کرب وہی جانتے ہیں۔ اور یہ کوئی پرانی بات نہیںجب گھر گھر کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ اشاعت گھر ادبی شہ پارے شائع کرتے تھے۔ کوئی کتاب بازار میں آتی تھی تو اس کی دھوم مچ جاتی تھی۔ لوگ کتاب خریدتے تھے، دوبارہ عرض کروں، خریدتے تھے۔ ورنہ ہر گلی محلے میں دو آنہ روز کے بھاؤ پر چھوٹی بڑی کتاب کرائے پر ملا کرتی تھی۔ لوگ رات بھر میں اسے ختم کر کے اگلی صبح نہ صرف لوٹا دیتے تھے بلکہ اس کی جگہ نئی کتاب لے آتے تھے، وہی دو آنہ روز کے بھاؤ۔
اب کیا ہوا ہے۔ میر تقی میر کے الفاظ میں کہہ سکتے ہیںکہ عجب اک سانحہ سے ہوگیا ہے۔ کتاب اور پڑھنے والے یعنی قاری کے درمیان فاصلہ بڑھ گیا ہے۔ اس سے بڑا ستم یہ ہوا ہے کہ مصنف اور قاری کے درمیان فاصلہ بڑھ گیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے واقف نہیں۔ ایک ہے کہ لکھتا نہیں، لکھتا ہے تو جانتا نہیں کہ کس کے لئے لکھ رہا ہے اور پڑھنے والا کیا چاہتا ہے، اس کی ضرورت کیا ہے اور اس کا تقاضا کیا ہے۔ یا پھر لکھنے والا اپنی دانست میں بہت ہی جدید اور اعلیٰ ادب تخلیق کر رہا ہے جسے اسی جدیدیت کے مارے ہوئے چند لوگ پڑھتے ہیں اور آپس ہی میں ایک دوسرے کی واہ واہ کرلیتے ہیں۔
چلئے یہ سب بھی گوارہ ہے، اردو ادب پر جو ایک اور ستم ہوا ہے وہ یہ کہ لوگوں نے نثر لکھنی بند کردی ہے، اب جسے دیکھئے غزل کہہ رہا ہے۔ شاعروں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہے، اگر اردو کے نا م پر کچھ ہورہا ہے تو وہ مشاعرہ ہے۔ گلی گلی ہی نہیں، ملکو ں ملکوں مشاعرے بپا ہیں۔ بعض شاعروں کا یہ حال ہے کہ اپنے گھر میں کم اور شعر و سخن کی محفلوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے ایک بار مجھ سے کہا کہ غزل کہنا شروع کردیجئے، دنیا بھر سے بلاوے آئیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے نثر کی آبیاری کی قسم کھائی ہے کہ یہ میراث بزرگوں سے ملی ہے،اسی کو سیراب کروں گا،کوئی نہیں بلاتا تو میری بلا سے۔
ایسے دور میں ایک شخص ہے جسے اپنا ہم نوا پاتا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی نے منشی پریم چند کے بعد اردو زبان اور ادب میں ایسے ایسے گل بوٹے کاڑھے ہیں کہ ان کی جتنی بھی قدرکی جائے کم ہے۔ مگر کیا ہے؟ کہیں ان کا ذکر ہو تو لوگ ان کا ایک شعر پڑھ کر رہ جاتے ہیں جس میں کسی دریا کے کسی سمندر میں اتر جانے کا ذکر ہے، اور بس۔ انہوں نے مختصر کہانی کے جو روشن مینار کھڑے کئے، وہ کسی کو یاد تک نہیں۔ اب چڑیل جیسی کہانی اور مامتا جیسا افسانہ کسی کے ذہن کے کسی گوشے تک میں نہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے کم سے کم بارہ مجموعے شائع ہوئے ہیں جن میں چوپال، بگولے، آنچل، سنّاٹا اور کپاس کا پھول نے بہت شہرت پائی۔مگر اب خدا جانے کہاں رُل گئے۔ ان کہانیوں کو پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یا اﷲ، کسی لکھنے والے کے ذہن کی اتنی اونچی اڑان بھی ہوسکتی ہے کہ جہاں ہمارا تصور بھی نہیں پہنچ پاتا۔
قاسمی صاحب کے نام کے ساتھ منشی پریم چند کا نام اکثر آتا ہے۔اس کے دو ایک اسباب ہیں۔ منشی صاحب تو اردو افسانے کے موجد ٹھہرے، قاسمی صاحب نے ان کی اٹھائی ہوئی عمارت کو خوب خوب آراستہ کیا۔ دوسرے یہ کہ ان دونوں صاحبان نے اپنی کہانیاں گاؤں کی خوش بو اور دیہات کی مہک میں بسائیںاور زندگی کے اس پہلو کو ہم شہریوں کی زندگیوں میں گوندھ دیاجو ہماری نگاہوں سے بھی پوشیدہ تھا اور ہمارے تصور سے بھی ماورا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے، جب کراچی میں اردو لغت بورڈ والے ایسی بھاری بھرکم لغت ترتیب دے رہے تھے جو ہماری زبان میں حرف آخر ٹھہرے گی تو معمول کے مطابق اردو ادب کا مطالعہ کر کے الفاظ کے کارڈ تیار کئے جا رہے تھے۔ مطالعہ کرتے کرتے جوں ہی احمد ندیم قاسمی کی تحریروں کی باری آئی تو گویا بھونچال آگیا۔ قاسمی صاحب نے گاؤں دیہات کی کیفیت بیان کرتے ہوئے مقامی بولی ٹھولی کو اپنی تحریر میں اس روانی سے،بے تکان اور بلاتکلف استعمال کیا کہ لفظوں کے کارڈ بنانے والوں کو بارہا قاسمی صاحب سے رجوع کر کے کتنے ہی الفا ظ کا مطلب سمجھنا پڑا۔ لفظوں کے خزانے میں نت نئے جواہر شامل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ قاسمی صاحب کے اشعار بہت جیتے جاگتے ہیں اور عرصے تک یاد رکھے جائیں گے کہ شاعری کو نثر پر یہی ایک فوقیت حاصل ہے کہ مصرعے یاد رہ جاتے ہیں اور موقع بہ موقع دہرائے جاتے ہیں جب کہ احباب کی محفل میں افسانوں او رکہانیوں کے حوالے کم ہی دئیے جاتے ہیں۔ قاسمی صاحب کی کہانیوں میں غضب کی درد مندی اورانسان دوستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان کی کوئی کہانی کسی نہ کسی مقصد سے نتھی ہے۔پھر ان کا بیانیہ پڑھنے والے کے ذہن پر جو نقش ابھارتا جاتا ہے اور جو تصویریںکھینچتا جاتا ہے۔ وہ کمال ہر ایک کو حاصل نہیں۔ کہانی کے کینوس پر وہ اس روانی سے اور کھلے ہاتھ سے اسٹروک لگاتے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو ان جھولوں پر محسوس کرنے لگتا ہے جو گاؤں کے میلے میں سب سے اونچے درخت کی سب سے توانا شاخ پر ڈالے جاتے ہیں، اس کو کہتے ہیں چشم تصور کی اڑان۔ اب رہ گئی فکشن کی سب سے بڑی خوبی یعنی کردار نگاری، اس میدان میں کُل ادب میں بس چند ہی نام آتے ہیں اور ان ناموں میں ایک نام بہت نمایا ں ہے: احمد ندیم قاسمی کا نام۔

.
تازہ ترین