• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 4اور5جولائی کی درمیانی رات تھی۔بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے فیصلے پر عملدرآمد کاآغاز ہو چکا تھا۔راولپنڈی کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی جو آپریشن فیئرپلے کے انچارج تھے،جی ایچ کیو میں قائم کنٹرول روم میں داخل ہوئے تو ضیا ء الحق نے پوچھا،کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہوئی؟جنرل چشتی نے بتایا کہ سب معاملات کنٹرول میں ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کی قیادت کو تحویل میں لینے کا عمل خوش اسلوبی سے جاری ہے۔وہ کارروائی کرنے والے تمام دستوں کے کمانڈرز سے ریڈیو کے ذریعے رابطے میں ہیں اور پریشانی والی کوئی بات نہیں۔اسی اثناء میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور سبز رنگ کاقمقمہ جلنے بجھنے لگا تو ضیا ء الحق نے ہاتھ بڑھا کر ٹیلی فون اٹھایا،ریسیور سے گرجدار آواز آئی:’’جنرل کیا ہو رہا ہے یہ سب؟‘‘ضیا ء الحق نے نہایت عاجزی و انکساری سے جواب دیا’’سر!میں نے ٹیک اوور کر لیا ہے اور اب آپ وزیراعظم نہیں رہے۔جلد ہی ایک جنرل آپ کو اسکارٹ کر کے مری لے جائے گا جبکہ آپ کی فیملی وزیراعظم ہائوس میں ہی رہے گی اور انہیں صبح لاڑکانہ منتقل کر دیا جائے گاـ‘‘بھٹو کے لئے یہ صورتحال ہرگز غیر متوقع نہ تھی اس لئے کوئی پس و پیش کرنے کے بجائے معزول وزیراعظم نے پوچھا کیا ایسا ممکن ہے کہ میں آج رات اپنے اہلخانہ کیساتھ گزارلوں اور صبح مری منتقل کیا جائے اور مری منتقل ہونے کے بعد میرے ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی کو میرے ساتھ ہی رہنے دیا جائے؟ضیا ء الحق انکار نہ کر سکے اور یہ دونوں مطالبات مان لئے گئے۔
مرد مومن مرد حق جنہوں نے افواج پاکستان کو تقویٰ، ایمان،جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو دیا اور جنہیں لوگ امیر المومنین سمجھتے رہے،ان کی خوشامد و چاپلوسی کے قصے تو بہت سنے ہوں گے آپ نے مگر ان کی دروغ گوئی کا ایک واقعہ جو ان کے شریک ِجرم جرنیل نے ہی بیان کیا ہے،اس کا علم ہونے پر دل سے ہوک سی اٹھتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ سپہ سالاری کے منصب تک جا پہنچے۔13مئی 1977ء کو جی ایچ کیو میں کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف نے بتایا کہ وزیراعظم دھاندلی کے الزامات پر دوبارہ انتخابات کروانے کے بجائے ریفرنڈم کے ذریعے عوامی مینڈیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں،کیا ہمیں اس فیصلے کی حمایت کرنا چاہئے؟بعض کورکمانڈرز اس فیصلے کے حق میں تھے اور کچھ جرنیلوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔مگر بحث و تمحیص کے بعد متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ ریفرنڈم کے بجائے انتخابات ہی سیاسی بحران کا حل ہیں۔آرمی چیف سے کہا گیا کہ وہ عسکری قیادت کا موقف وزیراعظم تک پہنچائیں۔سہ پہر کو وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب کرنا تھا اور سب کا خیال تھا کہ کورکمانڈرز کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ریفرنڈم کے بجائے ازسرنو انتخابات کا اعلان کیا جائے گا۔سب کورکمانڈرز آرمی چیف کے کمرے میں ٹی وی لگا کر بیٹھے تھے یہ خطاب سننے کے لئے۔خلاف توقع وزیراعظم نے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔کورکمانڈرز نے آرمی چیف سے استفسار کیا کہ کیا ان کا پیغام وزیراعظم تک پہنچا دیا گیا تھا؟ضیا ء الحق نے کہا باالکل میں نے انہیں آگاہ کر دیا تھا کہ فوجی قیادت کے خیال میں ریفرنڈم کے بجائے دوبارہ انتخابات ہی مسئلے کا حل ہیں۔جنرل فیض علی چشتی بیان کرتے ہیں کہ چند روز بعد جب وہ ضیا ء الحق کے ساتھ کابینہ کے اجلاس میں شریک تھے تو بھٹو نے جنرل ضیاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا؛’’جنرل ! تم نے تو کہا تھا کہ فوج ریفرنڈم کے حق میں ہے مگر آج مجھے معلوم ہوا کہ فوج کی رائے اس کے برعکس تھی‘‘جھوٹ پکڑے جانے پر جنرل ضیاء جھینپ گئے اور ان کے ماتحت جنرل چشتی ششدر رہ گئے۔
ضیا ء الحق کو معلوم تھا کہ خودکشی اور بغاوت دو ایسے اقدامات ہیں جن میں کامیابی پر تو کوئی سزا نہیں ہوتی مگر ناکامی کی صورت میں اپنے کئے کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اس لئے حفظ ماتقدم کے طور پر ضیاء الحق نے اپنی ذہنی معذور بیٹی کے آپریشن کا بہانہ کرتے ہوئے فیملی کو برطانیہ بھیج دیا تاکہ صورتحال مخدوش ہونے کی صورت میں ان کے اہلخانہ کو ابتلا و آزمائش کے مراحل سے نہ گزرنا پڑے۔ جنرل فیض علی چشتی جو اس بغاوت کے اہم کردار اور چشم دید گواہ ہیں،ان کی کتاب ’’بیٹریئلز آف این اَدر کائنڈ‘‘ گزشتہ چند روز سے ایک مرتبہ پھر زیر مطالعہ ہے۔وہ ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ جب مارشل لاء کی کارروائی جاری تھی تو راولپنڈی کور کے انٹیلی جنس چیف نے بتایا کہ دھمیال میں ایک ’’پوما‘‘ ہیلی کاپٹر مختصر نوٹس پر اڑان بھرنے کو تیار کھڑا ہے۔یہ ہیلی کاپٹر دو ہی افراد کے لئے ہوسکتا تھا،بھٹو یا پھر ضیا ء الحق۔بھٹو کا نام اس لئے خارج ازامکان ہے کہ اسے تو خبر ہی نہ تھی کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور پھر وہ اپنی فیملی کو تنہا چھوڑ کر کیسے جا سکتا تھا۔یہ ہیلی کاپٹرممکنہ طور پر ضیاء الحق کیلئے ہی تھا جس کا سب کچھ دائو پر لگا تھا۔اگر آپریشن فیئر پلے ناکام ہو جاتا تو ضیاء الحق کا کیا انجام ہوتا؟اسی لئے تو حکومت کا تختہ الٹنے کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے ضیاء نے مجھ سے کہا’’مرشد مروا نہ دینا‘‘بہر حال یہ ہیلی کاپٹر جس کسی کے لئے بھی تھا،میں نے انٹیلی جنس چیف کو کہا اس پر نظر رکھو اور یہ کسی صورت اڑنے نہ پائے۔‘‘
آپریشن فیئر پلے کی تفصیلات پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کہاں وہ وقت تھا کہ بعض خود سر لوگ اپنے آپ کو قانون اوراداروں سے بالاتر سمجھا کرتے تھے اور کہاں یہ دن آرہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کو وزیراعظم کی طرف سے الوداعی ظہرانہ دیا جا رہا ہے اور وہ عزت و احترام کے ساتھ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔اگر جمہوری و آئینی روایات مستحکم ہو رہی ہیں اور ادارے مضبوط ہو رہے ہیں تو میرے نزدیک یہ بات خوش آئند ہے۔مگرایسے میں ان لوگوں نے صف ِماتم بچھا رکھی ہے جو افواج پاکستان کے سربراہ کو ماورائے آئین اقدام پر اکسایاکرتے تھے۔ بیہودگی کی انتہا دیکھئے کہ کل تک جو ’’ابھی نہ جائو‘‘ کے قصیدے لکھا کرتے تھے آج تضحیک آمیز انداز میں تنقید پر اتر آئے ہیں۔راستے دو ہی ہیں۔میں تو اسلم بیگ،جہانگیر کرامت،اشفاق پرویز کیانی اور راحیل شریف کے ساتھ ہوں۔آپ ان کے ساتھ ہیں یا ایوب،یحییٰ،ضیاء اور مشرف کے ساتھ ہیں،فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔


.
تازہ ترین