• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان کمالات و فضائل کا مجموعہ بھی ہوتا ہے اور اِس میں اِسی درجے کی خامیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ کے پیغمبر خطاؤں سے پاک ہوتے ہیں اور اُن کا عمل قابلِ اتباع قرار پاتا ہے۔ 16اور 17نومبر کے دو روز ترک صدر جناب رجب ایردوان نے پاکستان میں گزارے۔ انہوں نے تیسری بار پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، تنازع کشمیر کے بامعنی حل اور اِسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا، اقتصادی راہداری کو خطے کی تقدیر بدل دینے والا منصوبہ قرار دیا اور پاک ترک دوستی کو معیشت کے سانچوں میں ڈھالنے اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے قدم سے قدم ملا کر چلنے کا اعلان کیا۔ وہ ایک ڈیڑھ عشرے سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے ہیں۔ 2005ء میں پاکستان میں حشر بداماں زلزلہ آیا، تو وزیراعظم ایردوان اپنے برادر ملک پاکستان کو امداد پہنچانے میں سب سے سبقت لے گئے۔ اُن کی اہلیہ نے اپنے عوام سے زیادہ سے زیادہ چندہ دینے کی اپیل کی اور اِس امدادی فنڈ میں اپنا بیش قیمت نیکلس فروخت کر کے حصہ لیا جس سے عام ترکوں میں غیر معمولی جوش و خروش پیدا ہوا۔ 2010ء میں پاکستان کو ایک بار پھر آسمانی آفت نے آ گھیرا اور بلاخیز سیلابوں سے بہت بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا اور دریاؤں کا پانی کئی کئی ماہ بستیوں میں کھڑا رہا جس سے وبائی امراض پھوٹ پڑے۔ اِس موقع پر بھی ترکی نے دوستی کا حق ادا کیا، جنوبی پنجاب میں بے گھروں کے لئے ہزاروں کی تعداد میں مکانات تعمیر کیے، جدید اسپتال بنائے، اعلیٰ معیار کا طرزِ زندگی متعارف کرایا اور باہمی اعتماد کی بدولت آج ترکی پاکستان کے مختلف شعبوں میں تعاون کا دائرہ وسیع تر کیے جا رہا ہے اور دونوں ملکوں کے عوام اور حکمرانوں کے مابین گہرے رشتے قائم ہیں۔
خوش قسمتی سے رجب ایردوان اپنے ملک میں بھی بے حد مقبول ہیں اور مسلم اُمہ میں بھی اُن کا اثرونفوذ پھیلتا جا رہا ہے۔ اِسی سال اپریل کے اوائل میں اسلامی تنظیم برائے تعاون (او آئی سی) کی سربراہ کانفرنس استنبول میں منعقد ہوئی جس میں ایران کے صدر بھی شریک ہوئے جو رجب ایردوان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ وہ آج او آئی سی کے چیئرمین ہیں اور مسلم کاز کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دیتے آئے ہیں۔ برما (میانمار) میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، تو انہوں نے سب سے پہلے آواز بلند کی جس سے مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کی ایک مہم چل نکلی۔ اِسی طرح بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے جب جعلی وار ٹریبونلز کے ذریعے پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑنے والے جانبازوں کو تختۂ دار پر لٹکانا شروع کیا، تو ترکی کے صدر رجب ایردوان نے اِس بھیانک جرم کے خلاف شدید احتجاج کیا اور بنگلہ دیش سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا۔ کسی بھی مسلم حکمران کو اِس حد تک جانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ چشمِ فلک وہ منظر بھی فراموش نہیں کر سکتی جب 2010ء میں اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کی، تو ایردوان صاحب نے فلسطینیوں کو امدادی سامان فراہم کرنے کے لئے ترک فلوٹیلا روانہ کیا جس پر اسرائیل نے فائر کھول دیا جس میں نو ترک موقع ہی پر شہید ہو گئے۔ عالمِ اسلام کے طول وعرض میں اردوان کی قوتِ ایمانی کے چرچے ہونے لگے اور ملک پر اُن کی گرفت مضبوط ہوتی گئی کہ اِس نے معیشت کو حیرت انگیز طور پر ترقی دی تھی۔ وہ جب استنبول کے میئر تھے تو فتح اللہ گولن اُن کے پیرومرشد تھے جو 50ء کے عشرے میں نورسی کی نور تحریک کے قریب ہوئے اور اُن کی وفات کے بعد ایک بہت بڑے مبلغ کے طور پر سامنے آئے۔ اِس تحریک سے بعدازاں نجم الدین اربکان وابستہ ہوئے جو تحریکِ اسلامی کے حقیقی رہنما ثابت ہوئے جو ترکی کو کمال اتاترک کی اسلام دشمنی سے نجات دلانے میں کامیاب رہے۔ انہیں اِس کٹھن سفر میں اعلیٰ منتظم اور خاموش طبع صوفی فتح اللہ گولن کا تعاون حاصل رہا جو اب گزشتہ 25برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور طیب ایردوان کے فکری حلیف رہے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر ایردوان صاحب نے اپنے سابق پیرومرشد فتح اللہ گولن اور اُن کی تحریکِ خدمت کو شیطانی قوت اور القاعدہ اور داعش کی طرح انسانیت اور پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور واضح طور پر الزام لگایا ہے کہ فتح اللہ گولن نے امریکی اشارے پر ترکی میں فوجی بغاوت کی سازش کی تھی۔ اسلام کے سنجیدہ حلقے اِس الزام پر سخت پریشان ہیں کہ اِس سے فکری تحریکوں کو شدید ضعف پہنچنے کا خطرہ پیدا ہو چلا ہے۔ طیب ایردوان بھی اسلامی فکر کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں اور اُن کی اہلیہ امینہ نے حجاب کی جنگ عظیم قربانیاں دے کر جیتی ہے۔ اِسی طرح فتح اللہ گولن جو ایک عظیم فکری رہنما کے طور پر جانے پہنچانے جاتے ہیں، انہوں نے ترکی میں اور ترکی سے باہر تعلیم و تربیت کے ہزاروں ادارے قائم کیے ہیں جن کے اچھے اثرات پورے معاشرے میں محسوس کیے جاتے رہے ہیں۔ گولن صاحب کے صوفیانہ خیالات نے فوج، عدلیہ، اساتذہ اور لاکھوں نوجوانوں کو متاثر کیا ہے اور اُن کے تیار شدہ لٹریچر میں مغرب کے گمراہ کن تصورات کا نہایت اچھا محاکمہ موجود ہے۔ انہوں نے حضرت محمد ﷺ کی سیرت کے بعض پہلو نہایت اچھوتے اور اثر انگیز پیرائے میں بیان کیے ہیں۔ دونوں سیاسی اور فکری طاقتیں جو سالہا سال ایک دوسرے کے ہم رکاب رہی ہیں، اِن کے درمیان دشمنی کا در آنا اور اُن کا ایک دوسرے کے خون کا پیاسے ہو جانا کسی طرح ایک بہت بڑے المیے سے کم نہیں۔ ہمارے خیال میں بدگمانیوں کو ہوا دینے کے بجائے عالمِ اسلام کی بااثر شخصیات کو معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اصلاحِ احوال کی سرتوڑ کوشش کرنی چاہیے۔ اصل خطرہ یہ محسوس ہو رہا ہے کہ کمالسٹ جو بڑی حد تک اقتدار و اختیار سے محروم ہو گئے ہیں وہ ترکی میں اسلامی تحریکوں میں پھوٹ ڈال کر عوام کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ پوری دنیا میں اسلام کی فکری تحریکوں اور اصلاحی رجحانات کا وقار ختم ہو جائے گا۔
اِس ضمن میں سب سے بڑی ذمہ داری طیب ایردوان پر آتی ہے۔ انہوں نے اِس سے قبل نجم الدین اربکان کی سربراہی میں اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا اور ایک مقام پر پہنچ کر اُن سے علیحدگی حاصل کر لی تھی۔ اب غالباً ایردوان صاحب نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے فتح اللہ گولن کو راہ سے ہٹانے کی ایک منظم کوشش کی جو کسی بھی مرحلے میں اُن کے اقتدار کے لئے چیلنج بن سکتے ہیں۔ جناب ایردوان کو ہمارا یہی مشورہ ہو گا کہ وہ ذات سے بلند ہو کر دانش مندانہ فیصلے کریں اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ چند روز کے اندر سینکڑوں ترک اساتذہ کا پاکستان سے اخراج ایک بہت بڑے انسانی مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اِن اسکولوں میں بچوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی اور ترک اساتذہ پاکستانی طلبہ کے ساتھ محبت کے رشتوں میں بندھے ہوئے تھے۔ حکومتِ پاکستان کی اخلاقی حیثیت پر بھی حرف آیا ہے۔اِسی طرح فوج سے سینکڑوں جرنیلوں کی برطرفی، پائلٹوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں اساتذہ کی گرفتاری اور اخبارات کی بندش اور صحافیوں کو حوالۂ زنداں کر دینا ترکی ریاست کو ضعف پہنچانے کا باعث بنیں گے۔


.
تازہ ترین