• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجیب مانوس اجنبی تھا جس کا نام جہانگیر بدر تھا، وہ میرے میاں یوسف کامران کا ایم کام میں کلاس فیلو تھا، یوسف بعد میں میرے ساتھ ایم اے اکنامکس میں تھا۔ جے بی یوسف سے ملنے آتا تو ہم لوگ یونیورسٹی کیفٹیریا میں جاکر سموسے کھاتے تھے، بس ہماری یہی عیاشی ہوتی تھی، سیاست ہماری گٹھی میں شروع سے پڑی تھی، ویت نام سے امریکی فوجوں کے نکالنے کا شور اس وقت سے تیز ہوا تھا جب ایک بھکشو نے خود سوزی کی تھی، یہ خبر ساری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی، آخر کار امریکیوں کو ویت نام سے نکلنا پڑا تھا، اب ہماری بحثوں میں چین کا کلچر ریولوشن شامل ہوگیا تھا، ہمارا ٹھیا، یونیورسٹی سے اٹھ کر چینیز لنچ ہوم ہوگیا تھا، میری اور یوسف کی شادی کے بعد، نوکری اور گھر کے دھندے ایسے پھیلے کہ جلسے جلوسوں میں ہماری ملاقات ہوتی تھی، مجھ سے زیادہ یوسف سے دوستی تھی، مجھے وہ ہمیشہ بھابھی کہہ کر بلاتا تھا، جے بی کے علاوہ احمد راہی بھی مجھے بھابھی کہہ کر بلاتا تھا۔
بھٹو صاحب نے پارٹی بنائی تب بھی ہم لوگ ایسے شورمچا رہے تھے جیسے ہماری سالگرہ ہو، میں سرکاری نوکر تھی اور یوسف پرائیویٹ سیکٹر میں، ایوب خان کے جلوسوں میں شرکت کرکے پھر چینیز آکر سیاسی گفتگو کرنے لگتے تھے، جے بی اور یوسف دونوں اندرون لاہور کے رہنے والے تھے، جے بی، ر،کو،ڑ اور، ڑ،کو،ر بولتا تھا، ہم ہنستے تھے بالکل چڑتا نہیں تھا، ہمارے ساتھ وہ بھی ہنس پڑتا تھا، اب وہ مکمل طور پر سیاست میں گم ہوگیا تھا، بھٹو صاحب کی حکومت آئی تو وزیر ہوگیا مگر اس کی ر اور،ڑ، بول چال میں ویسی ہی رہی، میں نیشنل سینٹر میں تھی جب بلاتی، آجاتا بغیر کسی نخرے کے ایس ایم مسعود، شیخ رشید اور جے بی ہمارے خیالات بھی ملتے تھے، ایک دوسرے کی عزت بھی کرتے تھے، زندگی نے بہت سے پلٹے کھائے، وہ دن بھی دیکھنا مقدر میں لکھا تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا، تمام سیاسی لیڈروں کم ازکم پی پی پی کے جوان رہنمائوں میں جے بی وہ جیالا تھا کہ کوڑے کھاکے بھی اپنے نظریئے سے نہیں ہٹا، جب بھی ملاقات ہوتی، چاہے وہ سالوں بعد ہو، ہمیں ایک دوسرے کی خبر ہوتی تھی، یوسف کی وفات پر کئی دن آتا رہا اور مجھ سے کہتا رہا ’’جب چاہو جو حکم دو، میں حاضر ہوں۔‘‘ اب پلٹ کر دیکھتی ہوں تو اعتزاز احسن اور رضا ربانی کے علاوہ کوئی ہمدم نظر نہیں آتا۔
چند سال ہوئے، جب وہ پی پی پی کا سیکرٹری جنرل نہیں رہا تھا، میں نے پوچھا اب کیا کر رہے ہو اب تو بینظیر بھی نہیں ہے، کہا ’’اسی پر کام کر رہا ہوں‘‘ پوچھا کیا مطلب‘‘ بولا ’’میں بینظیر پر ڈاکٹریٹ کر رہا ہوں‘‘ حیران ہوکر پوچھا اس حکومت کے دوران تمہیں اجازت مل گئی بولا ’’بڑی لڑائی کرنی پڑی ہے۔‘‘ پوچھا ’’کتنا لکھ لیا۔‘‘ آدھے سے زیادہ لکھ چکا ہوں۔‘‘ کچھ عرصہ ہوا، اسلام آباد کلب میں ملاقات ہوئی تو چہک کر بولا ’’میں نے لکھ بھی لیا اور میں ڈاکٹریٹ بھی ہوگیا ہوں۔‘‘ میں نے ماتھے پر پیار دیا، بس مجھ سے اس نے آخری بوسہ لیا تھا، اب معلوم نہیں اس کا تھیسس شائع ہوا کہ نہیں۔ ورنہ اب بچوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کے تھیسس کو ہم تک پہنچائیں۔
پیپلز پارٹی پر لکھا ہوا مواد ہے تو سہی مگر دیگر دو نمبر پارٹیوں پر بہت مواد نظر آتا تھا، میری روسی دوست انا سووروا نے پچھلے برس بینظیر پر کتاب لکھی تھی، کتاب پڑھ کر تھوڑی سی مایوسی ہوئی کہ وہ بینظیر سے صرف ایک دفعہ ملی تھی، پھر بھی اتنی متاثر ہوئی تھی کہ کتاب بنا لی تھی۔
جے بی کچھ عرصہ سے بیک گرائونڈ میں چلا گیا تھا، مگر اس پارٹی کا مزاج ہی ایسا ہوگیا ہے، سچ بات یہ ہے کہ جو پرانے کمیٹیڈ لوگ باقی ہیں، چاہے وہ نوے برس کے ہی ہوچکے ہوں۔ پی پی پی کےخزاں کا دور بلاول کے آنے سے ختم ہو رہا ہے، نئے شگوفوں کی طرح نوجوان خون بھی شامل ہوگا تو بھٹو صاحب کی پارٹی والا رنگ آجائے گا، بشرطیکہ کوثر نیازی جیسے لوگ بلاول کو گمراہ نہ کریں۔
جہانگیر بدر جیسے لوگوں کی مثالیں سیاست میں اور نثار عثمانی اور منہاج برنا کی صحافت میں مثالوں کو سامنے رکھ کر پھر مجھے معراج محمد خان یاد آگئے ہیں، ہر چند بھٹو صاحب نے ان کو جیل میں ڈال دیا تھا، ان کی بینائی بھی اسی زمانے میں خراب ہوئی مگر ترقی پسند نظریات سے نہیں ہٹے، بلاول کو اپنے نانا اور ماں پر لکھی ہوئی کتابوں کو بغور پڑھنا چاہئے، پاکستان کی سیاست کے وڈیرے پن سے رہائی حاصل کرنی چاہئے، یہ بھی مطالعہ کرنا چاہئے کہ آخر کونسی بات ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے جاہل اور بے وقوف لوگوں کو امریکی عوام نے پسند کیا اور نوجوان لوگوں نے جلوس نکال کر اس کے صدر بننے کو ناپسند کیا ہے، ابھی تو بہت دن ہیں، 20؍جنوری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے ہنر کھلنے شروع ہوں گے، کلنٹن کی ذراسی بات کا فسانہ بن گیا تھا، یہ تو خیر کاما سوترا پڑھے ہوئے اور تیرتھ رام فیروز پوری کے ناول پڑھے ہوئے اور ایچ آئی وی کی محرکات سے بھی آشنا ہیں، خیر ہمیں پرائی کیا پڑی، ہم تو چاہتے کوئی تو اور جیالا جہانگیر جیسا سامنے آئے، جے بی کے بیٹوں سے درخواست ہے کہ جے بی کے تھیسس کو شائع کرواکر ہمیں بھی بھجوائیں۔


.
تازہ ترین