• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کی فوج کے موجودہ چیف آف اسٹاف جنرل راحیل شریف جو اب اپنے عہدے کی مدّت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں ان کو پاکستان کی ساری قوم یاد رکھے گی۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے ساری مدّت ملازمت کے دوران ایک بار بھی اشارہ تک نہیں دیا کہ وہ اپنے عہدے کی مدّت میں توسیع چاہتے ہیں یا مارشل لالگا کر ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے کی اس مدّت کے دوران نہ ایسی بات کی اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ دیا۔ انہوں نے ایک بار بھی جمہوریت کو پٹری سے اُتارنے کی بات نہ کی حالانکہ کچھ عرصے سے کچھ ’’نامعلوم‘‘ عناصر ایسی چہ میگوئیاں گردش کرانے میں خاصے سرگرم ہوگئے تھے کہ جنرل راحیل شریف کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کی فوج کے چیف آف اسٹاف کے طور پر کافی عرصے تک برقرار رہنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ان ہی دنوں ملک کے مختلف شہروں میں ایسے بینر اور پمفلٹ بھی چسپاں کئے گئے جن میں جنرل راحیل شریف سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ نہ جائیں۔ مگر سلام ہے جنرل راحیل شریف کو انہوں نے ان میں سے کسی بات پر بھی توجہ نہ دی مگر اپنے عہدے کی مدّت ختم ہونے تک انتہائی سچائی اور بہادری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف پاکستان کے Unique قسم کے آرمی چیف آف اسٹاف ثابت ہوئے ہیں۔ وہ ہر محاذ سے پاکستان کے حقیقی ہیرو ہیں۔ علاوہ ازیں جنرل راحیل شریف کے اور بھی کارنامے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے پاکستان کے مختلف حصوں میں نہ صرف مذہبی انتہاپسند دہشت گرد تنظیموں مگر لسانی دہشت گرد تنظیموں جن کے روابط ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ سے بتائے جاتے ہیں کے خلاف ضرب عضب آپریشن کے تحت ان کی کمر کو توڑ دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب بھی ان دہشت گرد تنظیموں کے عزائم دُرست نظر نہیں آتے ان کے پاس اب بھی دہشت گردی کرنے کی کسی حد تک اہلیت ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر جنرل راحیل شریف کی جگہ جو پاکستان کی فوج کا نیا چیف آف اسٹاف بنتے ہیں ان سے عوام یہی توقعات رکھیں گے کہ وہ بھی جنرل راحیل شریف کی اہلیت اور کارکردگی کو برقرار رکھیں گے اور ملک کے مختلف حصوں میں جو دہشت گرد گروپ باقی بچ گئے ہیں ان کی کمر توڑ کر رکھ دیں گے۔ ساتھ ہی جنرل راحیل شریف کے اس کردار کی تعریف کئے بنا نہیں رہا جاتا کہ انہوں نے ملک کے مختلف حصوں خاص طور پر سندھ میں کرپشن کی جڑوں کو کافی حد تک ختم کیا۔ مگر اکثر لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ کام بھی ابھی مکمل ہونا ہے۔ لہٰذا نئے چیف آف اسٹاف سے یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اس مشن کو بھی مکمل کریں گے۔ اکثر سیاسی حلقوں کو یہ شکایت ہے کہ پنجاب کی حکومت نے پنجاب سے کرپشن کو ختم کرنے کیلئے آپریشن کرنے کی اجازت دی اور نہ پنجاب سے مذہبی دہشت گرد تنظیموں کا مکمل صفایا کرنے دیا۔ یہ سب کو پتا ہے کہ ’’گڈ طالبان‘‘ اور ’’بیڈ طالبان‘‘ کے ٹروکس حکومت نے ایجاد کئے، پھر پنجاب میں چھوٹو گینگ سے کون واقف نہیں۔ اس گینگ پر ایک بار ہلکا سا آپریشن ضرور کرنے دیا گیا مگر ان کا مکمل خاتمہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ساتھ ہی اب یہ جو’’ سی پیک‘‘ کا منصوبہ شروع ہوا ہے تو اس پر عملدرآمد کرنے میں بھی جنرل راحیل شریف کا ایک اہم کردار تھا۔ ان ساری باتوں کی وجہ سے پاکستان کے اکثر سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کو قوم کی طرف سے ایسا خراج تحسین پیش کیا جائے جس کی مثال نہ اب تک پاکستان میں ہو اور نہ دُنیا بھر میں۔ جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرنا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ آئندہ پاکستان کا نیا فوجی چیف آف اسٹاف اس بے مثال خراج تحسین سے اس حد تک متاثر ہوکہ آئندہ کوئی بھی چیف آف اسٹاف جنرل راحیل شریف کی طرف سے قائم کی گئی مثال سے رُوگردانی نہ کرسکے، تو پھر یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس سلسلے میں کئی سیاسی حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو مثالی خراج تحسین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں کچھ حلقوں سے جو تجاویز آ رہی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پارلیمنٹ کا ہر ممبر جنرل راحیل شریف کو اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرے۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ کے چیئرمین جنرل راحیل شریف کو ’’پاکستان کا قومی ہیرو‘‘ قرار دیں اور ساتھ ہی ملک کے وزیراعظم اتنے کارنامے سرانجام دینے پر جنرل راحیل شریف کو ’’پاکستان کا سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ‘‘ دیں۔
جنرل راحیل شریف نے کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں بعض اساتذہ کی طرف سے طلبہ پر ہونے والے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خودکشیوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا۔
شاید بہت کم لوگوں کو پتا ہوگا کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں ان کی ہدایات پرسندھ کے نوجوان بڑی تعداد میں فوج میں نہ فقط سپاہی کی حیثیت میں بلکہ افسر کے طور پر بھرتی ہوئے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دنوں فاٹا اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے جو سپاہی اور افسر شہید ہوئے ان میں سندھ کے نوجوانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل تھی۔ ان وجوہات کی بناپر سندھ کے عوام جنرل راحیل شریف سے توقع کرتے ہیں کہ وہ یہ عہدہ چھوڑنے سے پہلے سندھ کے ابتر حالات کو کنٹرول کر جائیں۔
میں نے ایک کالم میں تجویز دی تھی کہ انگریزوں کے خلاف پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی نے اپنے مریدوں کے ساتھ انگریز سامراج کے خلاف جو مسلح جدوجہد کی تھی اس کے نتیجے میں اسے پھانسی دیدی گئی تھی۔ آج تک ان کی قبر کا پتہ نہیں ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ جنرل راحیل شریف ہدایات دیں کہ اس مرد حر کی قبر تلاش کی جائے پگارا خاندان کی خدمات کا باقاعدہ اعتراف کیا جائے۔


.
تازہ ترین