• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی عہد کی سوچ اس عہد کے لوگوں کا مشترکہ سرمایہ ہوتی ہے ا سے انسانی سوچ کے تسلسل اور تواتر سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور مختلف خانوں، گھرانوں کی تجوریوں میں بھی نہیں رکھا جا سکتا چنانچہ بیسویں صدی فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی دونوں کی صدی ہے اور اس صدی میں مرزا غالب ، علامہ اقبال اور الطاف حسین حالی کے خلاف منیر نیازی، مجید امجد، صوفی تبسم، ناصر کاظمی، سردار جعفری، استاد دامن، حبیب جالب اور امرتا پریتم کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور ان کے پیچھے برصغیر کی تمام زبانوں زمانوں اور انسانی سوچوں کی سخن وردی کے سلسلے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ورنہ امرتا پریتم وارث شاہ سے یہ درخواست کیسے کر سکے گی کہ وہ عشق کی کتاب کا کوئی اگلا ورق الٹنے کی کوشش فرمائیں اور فیض احمد فیض کی شاعری کے صحن میں میرا بائی کے سوز کی تپش کیسے محسوس کی جا سکے گی؟لاہور شہر نے گزشتہ دنوں فیض اور ندیم کی شاعری کو خوبصورت اور مربوط انداز میں خراج تحسین ادا کیا اور نئی نسلوں کو اپنی پرانی نسلوں سے محبت کرنے اور ان کا احترام کرنے کے نئے انداز سے متعارف کرایا ۔ دونوں عظیم شخصیتوں کے درمیان کچھ اختلافات کی موجودگی کی بعض افواہیں پائی جاتی تھیں مگر اختلافات تو ایک ہی نظریے کو قبول کرنے والے لوگوں میں پائے جاتے ہیں اور یہ مقولہ بھی قابل توجہ ہے کہ ’’سمجھ دار لوگ ایک ہی انداز میں سوچتے ہیں اور بیوقوفوں میں اختلاف نہیں ہوتا‘‘ میرے جیسے اور مجھ سے بہتر سوچ رکھنے والے لوگوں کو فیض اور ندیم دونوں کی محبت اور توجہ کا اعزاز حاصل ہے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں عظیم فنکاروں میں کوئی نظریاتی یا ذاتی اختلاف نہیں تھا دونوں ایک دوسرے اور باہمی نظریات سے محبت کرتے تھے اور سب ساتھیوں کے لئے پیار کے جذبات رکھتے تھے ۔منیر نیازی مرحوم کے الفاظ میں یہ اختلافات بحیثیت دونوں نے افواہوں کی طرح پھیلائے تھے ہمارے مہربان دوست ایوب اولیاء بتاتے ہیں انہوں نے فیض احمد فیض کی ایک محفل میں حفیظ جالندھری سے اپنی ملاقات کے حوالے سے بات شروع کی ان کے انداز تکلم سے فیض نے کچھ اندازہ لگا لیا کہ حفیظ کی شکایت ہونے والی ہے چنانچہ انہوں نے پیش بندی کے تحت فرمایا کہ’’آپ کے بزرگوں نے بھی کبھی آپ کو برا بھلا کہہ کر شکایت کرنے کا موقع دیا ہو گا مگر آپ نے انہیں برداشت کر لیا ہو گا۔ حفیظ صاحب سے اگر ایسی کوئی حرکت ہو گئی ہے تو انہیں بھی معاف فرما دیں تو نوازش ہو گی ‘‘کچھ ایسے ہی انداز میں ندیم قاسمی مرحوم بھی اپنے ملنے والوں سے محبت، پیار، خلوص اور نیک سلوک کی باتیں کیا کرتے تھے۔ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے قابل قدر اور لائق احترام بزگوں کے مثبت پہلو ئوں پر توجہ دیں اور ان پہلوئوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ان کے محبت، پیار اور انسانیت کی خدمت کے پیغامات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ ان کے حوالے یا بہانےسے اپنے اندر کے غصے اور اختلافی مواد کو بروئے کار لانے اور گندگی پھیلانے کی کوشش نہ کریں دوسرے لفظوں سے فیض اور ندیم جیسے بزرگوں سے ملنے والے سرمائے کو برباد کرنے یا اجاڑنے کی بجائے مناسب اور موزوں انداز میں سب کے بھلے کے لئے استعمال کریں کہ اس میں ہم سب کی بہتری ہے ہماری نجات کا بھی یہی مثبت راستہ ہوگا۔


.
تازہ ترین