• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 29 نومبر کو سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملی و عسکری خدمات کو شاندار خراج تحسین اور جنرل راحیل کی طرف سے وزیراعظم کے محبت بھرے الفاظ اور حمایت پر ان سے اظہار تشکر سول ملٹری تعلقات میں ایک نئی روایت کا آئنہ دار قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو نے ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کے اعزاز میں وزیراعظم ہائوس میں اتنا پرتکلف عشائیہ دیا جس میں بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان وفاقی وزراء اور اہم مناصب پر فائز دوسری مقتدر شخصیات نے شرکت کی اس سے قبل چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل راشد محمود کے اعزاز میں بھی وزیراعظم الوداعی ضیافت کا اہتمام کر چکے ہیںجناب نواز شریف نے جنرل راحیل کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی قیادت میں فوج نے نہ صرف بیرونی خطرات بلکہ دہشت گردی کی لعنت کا بھی مقابلہ کیا جس کی وجہ سے آج پاکستان 2013ء کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہے ہم نے کامیابی سے ریاست کی رٹ قائم کی اور ایک ایک انچ پر مکمل کنٹرول اور خود مختاری حاصل کی میں نے تین سال ان کے سٹرٹیجک مشوروں پر اعتماد کیا اور آئندہ بھی ان سے مشورے کرتا رہونگا وزیراعظم کا یہ اظہار خیال اور آرمی چیف کا اظہار تشکر، پھر جنرل راحیل کا مدت ملازمت میں توسیع نہ لینا اور آرمی کمان میں معمول کی تبدیلی سول ملٹری تعلقات میں ایک مثبت عمل اور آئین و جمہوریت کی پاسداری کی علامت ہے یہ سب کچھ اس معاملہ پر ہر طرح کی قیاس آرائیوں اور حکومت کو مختلف اطراف سے دی جانے والی تجاویز کے باوجود خوش اسلوبی سے انجام پایا توقع ہے کہ نئے آرمی چیف کے تقرر میں بھی یہی سپرٹ کارفرما رہے گی اور جنرل راحیل کے تقرر کی طرح میرٹ کو ملحوظ رکھا جائے گا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان زیادہ تر تنائو کے مظاہردیکھنے میں آئے اور قوم کو چار بار مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا اس حوالے سے سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی کا سینٹ اور دولت مشترکہ کے تعاون سے ہونے والے سیمینار میں یہ کہنا کہ پاکستانی جمہوریت کو سول ملٹری تعلقات حکومت عدلیہ ریلیشن شپ اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اختیارات میں عدم توازن جیسے چیلنجز کا سامنا ہے قوم اور ارباب اختیار کے لئے انتہائی غور طلب معاملہ ہے جس کا حل نکلنا چاہئے ان کا کہنا تھا کہ حکمران اشرافیہ نے ایسی روش اختیار کر لی ہے جس کے تحت کوئی شخص آئینی اداروں اور قانون کی حکمرانی کی بات کرےتو اسے فوج کے خلاف تصور کیا جاتا ہے انہوں نے واضح کیا کہ سیاستدان کبھی فوج کے خلاف نہیں رہے آئین کے تحت ہر ادارے کا اپنا اپنا کردار ہے رضا ربانی جو ایک سنجیدہ اور دانشور پارلیمنٹیرن ہیں کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سول ملٹری تعلقات ہیں وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت اب بھی عبوری دور سے گذر رہی ہے لیکن جیسی بھی ہے آمریت سے بہتر ہے چیئرمین سینٹ کی یہ رائے بھی دعوت فکر دیتی ہے کہ جب دوسرے ادارے اپنا احتساب خود کرتے ہیں عدلیہ، فوج اور بیورو کریسی میں احتساب اور سزا کا اپنا نظام ہے تو سیاستدانوں کا احتساب بھی پارلیمان کو کرنا چاہئے نہ کہ خصوصی عدالتوں کو، سول ملٹری تعلقات کے نئے پس منظر میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے وقت ہمیں ان کی باتوں کو بھی دھیان میں رکھنا ہو گا اور ملک کی اندرونی و بیرونی صورت حال کے تناظر میں مشترکہ سوچ اپنانا ہو گی ریاست کی کامیابی اس کے آئینی و قانونی اداروں کی کامیابی میں مضمر ہے ہر ادارہ اپنے د ائرہ کار میں رہتے ہوئے اس کامیابی کو موثر اور یقینی بنا سکتا ہے۔ پاکستان کی محب وطن فوج نے سیاسی قیادت کے اجتماعی فیصلے کے تحت ایک نڈر سربراہ کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی جو دنیا بھر کے لئے مثال بنی باقی معاملات بھی اسی جذبے سے طے ہوتے رہیں تو پاکستان مزید کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹ سکتا ہے۔

.
تازہ ترین