• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترک صدر طیب اردوان کا دورئہ پاکستان انتہائی اہم رہا، خصوصاً ایسے وقت میں جب پاکستان کو دوستوں کی مدد اور تعلق کے اظہار کی ضرورت ہے۔ یہ دورئہ اس لئے اور بھی اہم ہوگیا کہ اسرائیلی وزیراعظم نے بھارت کا دورے کیا، ویسے طیب اردوان نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرلئے ہیں، حماس کیلئے ترکی میں دفتر کھولے رکھنے پر انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، وہ ویسے ہی کام کرتے رہیں گے جیسا کہ پہلے کام کرتے تھے۔ اسرائیل اور بھارت ملکر پاکستان پر سائبر اور لیزر سے حملے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، تاہم اس سلسلے میں پاکستان کو چین کے سیٹلائٹ سے قدرے تحفظ مل سکتا ہے، البتہ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان تاحال کوئی سیٹلائٹ خلا میں لانچ نہیں کرسکا جبکہ بھارت کے 33 سیٹلائٹ خلامیں ہیں۔ یاد رہے کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں امریکہ نے سیٹلائٹ سے اسرائیل کی مدد کرکے اسکو شکست سے بچایا تھا اور جب بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تو یہ گمان ہوا تھا کہ شاید اس میں اسرائیل اور امریکہ کی مدد شامل رہی ہو، مگر بھارت اب تک سرجیکل اسٹرائیک کے دعویٰ کےثبوت فراہم نہیں کرسکا، سوائے اِس کے کہ وہ ایک یا دو کلومیٹر آگے بڑھ کر اس نے ہمارے دو بنکرز تباہ کئے اور دو فوجی شہید کئے، جواباً پاکستان نے حال ہی میں بھارت کے گیارہ فوجی اور تین بنکرز کو مکمل تباہ کردیا۔ اِسکے علاوہ پاکستان کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک بھارت کے 44 فوجی مارے جا چکے ہیں مگر بھارت کے کئی تجزیہ نگاروں جن میں بھارت کرند جیسے دفاعی تجزیہ نگار بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور بھارت ٹیکنالوجی میں پاکستان سے آگے ہے۔ یہ فی الحال قدرے درست ہوسکتا ہے کہ ہماری سیٹلائٹ اور لیزر ٹیکنالوجی پر مہارت کا اظہار نہیں ہوا ہے، اگرچہ لیزر ٹیکنالوجی پر کچھ پیش رفت نظر آئی ہے، بھارت سیٹلائٹ، لیزر اور بحری قوت بڑھانے پر 1985ء سے کام کررہا ہے اور اس پر وہ کافی اخراجات کر چکا ہے مگر پاکستان دیر سے ہی سہی مگر وہ بہت تیز رفتاری سے بھارت سے آگے نکل جائے گا، پاک ترکی عسکری قیادتوں نے فوجی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا، ترک جنرل ہلوشی اکار اور پاکستان کے تینوں مسلح افواج کے سربراہان جنرل راحیل شریف، بحریہ کے سربراہ ایڈمرل محمد ذکاء اللہ اور فضائیہ کے چیف ایئر مارشل سہیل امان نے پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود کی سربراہی میں ملاقات کی۔ پھر ترک ہمارے سپر مشاق طیارے استعمال کررہا ہے، ترکی کے تعاون سے ہم نے اپنے بحری شپ یارڈ میں جدید بحری فلیٹ بنایا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایئرفورس کے طیارے فراہم کرنے کی بات چل رہی تھی جو کبھی بھی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتی ہے۔ بہرحال ترکی اور پاکستان کے درمیان تعلقات اس لئے اہم ہیں کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج بہت طاقتور اور بہت صلاحیتوں کی حامل ہیں، پہلے پاکستان، ایران اور ترکی علاقائی تعاون سے جڑے ہوئے تھے مگر ابھی ایسے تعلقات کی بحالی میں ایران کے فیصلے کا انتظار ہے۔ ترک قوم پاکستان سے ہمیشہ محبت کرتی رہی ہے، ہندوستان کے مسلمانوں کی دوسری جنگ عظیم میں ترکی نے جو مدد کی وہ اُسکو نہیں بھولے ہیں اور اُن کے نصاب میں یہ مضمون پڑھایا جاتا ہے کہ مسلمان خواتین نے اپنے زیور ترکی کی مدد کیلئے دیدیئے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کی خاتون اوّل نے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے اپنا ہیروں کا ہار امداد میں دیا تھا، ترکی پاکستانیوں سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ترکی ایک طویل سفر کے بعد اسلام کی طرف واپس لوٹا، اسکا یورپی ملک بننے کا خواب چکناچور ہوا اور اسلامی پارٹی ملک میں بتدریج اقتدار حاصل کرتی رہی، اب مغرب میں طیب اردوان کا ذکر ترکی کے نئے سلطان کے حوالے سے کیا جاتا ہے جو ایک قسم کا طنز بھی ہے اور خطرہ کی علامت بھی کہ ترکی سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر موجود تھا، یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ ترکی کے موجودہ صدر اِس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب دہشت گردوں کا مددگار ہے۔ طیب اردوان نے تیسری مرتبہ پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کا شرف حاصل کیا تو اُن کے زبان سے یہ الفاظ نکلے امّہ کو متحد ہو کر انتہاپسند تنظیموں کو ختم کرنا چاہئے اور یہ کہ عالمی برادری اسلام فوبیا کی روک تھام کرے، اِسکے علاوہ پاک ترک اعلامیہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کے سیکورٹی اہلکاروں کی قربانیوں کی تعریف کی گئی، پاکستان کے حکمرانوں کیلئے یہ بات بہت اہم ہے اور ترکی کے صدر کا دورہ اُن کو تقویت پہنچاتا ہے کہ طیب اردوان نے ترک فوج کی بغاوت کو جو امریکی ایما پر کی گئی کچل دیا۔ طیب اردوان کی پاکستان ایسے وقت آمد حکومت کیلئے نئی توانائی کے حصول کا باعث ہے کہ وہ شخص پاکستان آیا جس نے بغاوت پر عوام کے تعاون سے قابو پایا۔ اسی لئے پاکستان کے وزیراعظم نے کہا کہ ترک عوام نے جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت ناکام بنا کر مثال قائم کی، یہ عہد کیا کہ امن و سلامتی کیلئے مل کر کام کریں گے، پاکستان نے ترکی کا نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ میں پاکستان کی مدد کرنے کا شکریہ ادا کیا۔ ترک صدر نے واضح طور پر کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے، انہوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں دردناک واقعات عالمی توجہ کے منتظر ہیں، انہوں نے زور دے کر کہا کہ مشکل وقت میں پاکستانیوں کو فراموش کیا اور نہ کریں گے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ترک صدر کا یہ جان لینا بہت اہم ہے کہ مغرب دہشت گردوں کا مددگار ہے، ہمارے خیال سے وہ دہشت گردوں کو جنم دیتا ہے اور اُسے ایک جرثومہ بنا دیتا ہے اور اُسکو مسلمانوں کے درمیان چھوڑ دیتا ہے، امریکی سابقہ وزیر خارجہ اور صدارت میں ناکام ہونے والی ہیلری کلنٹن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ القاعدہ طالبان انہوں نے بنائے تاکہ روس کو شکست دی جاسکے اور اب داعش بھی اُن کی پیدا کردہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کے کئی بڑے اہم ممالک پاکستان، ترکی، سعودی عرب، ایران، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش اِس بات کو سمجھیں اور دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کریں، یہ بات جان لینا چاہئے کہ تہذیبی تصادم کا جو نظریہ دیا گیا ہے اسکو عملی شکل دینے کے مراحل پورے ہوچکے ہیں، اُسکی صف بندی اور اعلان باقی ہے، اس سلسلے میں افغانستان میںامن قائم کرنے کیلئے دسمبر میں پاکستان، چین اور روس کے درمیان ماسکو میں مذاکرات ہورہے ہیں۔ چنانچہ حالات کا تقاضا ہے کہ بھارت بھی اس معاملے کو سمجھے۔ بھارت کو چاہئے کہ وہ پاکستان دشمنی میں اسرائیل سے اشتراک نہ کرے جو خود بھارت کے لئے تباہی لے کر آئے گا۔


.
تازہ ترین