• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس جیسی عالمی طاقت کو بھی شامل کرنے اورتجارتی مقاصد کے لیے گوادر کی بندرگاہ تک رسائی دینے کا فیصلہ بلاشبہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی ترقی و خوش حالی کا سبب بنے گا بلکہ یہ توقع بھی بے جا نہ ہوگی کہ علاقائی و عالمی امن واستحکام کے حوالے سے بھی اس کے اثرات نہایت مثبت اور دوررس ہوں گے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان پچھلے کئی ہفتوں سے جاری مذاکرات کے بعد پاکستان نے روس کو سی پیک منصوبے میں باضابطہ طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب آنے والے دنوں میں اس ضمن میں دونوں حکومتوں میں ضروری معاہدے عمل میں لائے جائیں گے ۔فی الحقیقت یہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے جس کے نتیجے میں اس عظیم عالمی طاقت کی گرم پانیوں تک رسائی کے نام سے معروف ایک ایسی ضرورت کی تکمیل ہوجائے گی جس کی وہ نہ صرف عشروں سے خواہش مند تھی بلکہ پچھلی دہائی کے آخری عشروں میں افغانستان پر سوویت یونین کی فوج کشی کا ایک بنیادی مقصد بھی مبینہ طور پر یہ تھا کہ اگلے مرحلے میں پاکستان کے گرم ساحلوں تک رسائی حاصل کی جائے لیکن افغانستان میں شدید مزاحمت کا سامنا ہونے کی بناء پر جس کی پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھرپور حمایت کی گئی، سوویت یونین ایسی شکست سے دوچار ہوا کہ اس کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا بھی ممکن نہ رہا۔ تاہم بالغ نظر روسی قیادت نے اپنے اس تجربے سے سبق سیکھا، ترکستانی ریاستوں کو آزادی دی اور محض فوجی طاقت بڑھانے کے بجائے روسی مملکت کو از سرنو مستحکم کرنے، آمرانہ اطوار کے بجائے جمہوری اصولوں کو فروغ دینے ، اقتصادی ترقی اور تجارتی روابط کو ووسیع اور دنیا کے تمام ملکوں خصوصاً پڑوسی ریاستوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے پر اپنی توجہات مرتکز کیں جس کے نتیجے میں آج روسی ریاست ایک بار پھر ہر اعتبار سے دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے۔پاکستان اور چین سے بھی روس کے تعلقات کئی دہائیوں تک نہایت کشیدہ رہے لیکن نہ صرف روس بلکہ چین اور پاکستان کی قیادتوں نے بھی اس حقیقت کو سمجھا کہ قوموں کی ترقی کے لیے تصادم اور تناؤ کے بجائے مفاہمت اور تعاون پر مبنی پالیسیوں کا اختیار کیا جانا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج سی پیک کی صورت میں ایک ایسا عظیم منصوبہ زیر تکمیل ہے جو نہ صرف جنوبی و وسطی ایشیا بلکہ آدھی دنیا کو سرگرم اقتصادی اور تجارتی روابط میں منسلک کرنے کا ذریعہ بنے گا ۔ اسی درست حکمت عملی کی بناء پر روس بھی گرم پانیوں تک رسائی کے جو خواب عشروں سے دیکھتا چلا آرہا تھا وہ کسی جنگ و جدل کے بجائے امن، دوستی اور تعاون کے ذریعے شرمندہ تعبیر ہورہا ہے۔ پاکستان کی سرزمین اپنے جغرافیائی محل دقوع کی بناء پر تاریخ کے ہردور میں دنیا کے بیشتر ملکوں کیلئے تجارتی راہداری کا کام انجام دیتی اور اس کے بدلے میں بے پناہ معاشی فوائد سے مستفید ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کا یہ کردار سی پیک کی شکل میں آج ایک بار پھر اس شان سے بحال ہورہا ہے کہ خطے کے تمام ہی ملک اس منصوبے میں شامل ہونے کے آرزومند ہیں اور پاکستان نے سب کیلئے اپنے دل کے دروازے وا کررکھے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز اپنے دورہ ترکمانستان میں اسی جذبے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے ایشیاکو کراچی اور گوادر کی بندرگاہ تک لے جائیں گے اورسی پیک منصوبے سے دنیا کی نصف آبادی فیضیاب ہوگی ۔ تاہم بھارتی قیادت کی جانب سے اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی کوششیں بہرحال سخت تشویشناک اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں لہٰذا بھارتی قیادت کو بھی سمجھایا جانا چاہیے کہ کشیدگی اور تصادم کے بجائے مفاہمت اور تعاون کا راستہ اختیار کرکے وہ خود اپنے عوام کے لیے خوشحالی کے راستے کھول سکتی ہے جبکہ نفرت اور تشدد کی سیاست سے خود اسے بھی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ روسی قیادت اس معاملے میں یقیناً اہم کردار ادا کرسکتی ہے لہٰذاسے فوری طور پر اس جانب توجہ دینی چاہئے۔


.
تازہ ترین