• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سول عسکری تعلقات کے حوالے سے گزشتہ تین سال کٹھن ترین ادوار میں سے ایک تھے۔وزیراعظم نوازشریف نے جب نومبر 2013میں جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف تعینات کیا تو عمومی تاثر تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی خواہش کو نظر انداز کیا گیا ہے۔بلکہ اطلاعات یہاں تک تھیں کہ آخری وقت تک فوج میں تاثر تھا کہ جنرل کیانی کے اس وقت کے سی جی ایس جنرل راشدکو آرمی چیف بنایا جائے گا۔لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وزیراعظم نوازشریف نے نہ ہی جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع دی اور نہ ہی ان کا تجویز کنندہ آرمی چیف لگایا۔
جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد فوج اور حکومت کے درمیان سب سے اہم معاملہ طالبان کے خلاف آپریشن یا پھر مذاکرات کا تھا۔سویلین حکومت کی خواہش تھی کہ طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے کرمغربی بارڈر پر امن کا ایک اور موقع فراہم کیا جائے۔جس کی تمام تر کوششیں بھی کی گئیں مگرکوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوسکی۔جس کے بعد سویلین اور عسکری قیادت نے آپریشن کا فیصلہ کیا۔ مگر اس ساری صورتحال کے دوران دونوں اداروں میں دوریوں کا آغاز ہوا۔آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد دوسرامعاملہ مشرقی بارڈر کے معاملات کا تھا۔جس پر عسکری اور سیاسی قیادت کا شدید اختلاف تھا۔وزیراعظم نوازشریف کی خواہش رہی کہ ہمسایوں کو بدلا نہیں جاسکتا ۔اس لئے حکمت سے کام لیتے ہوئے بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات رکھے جائیں۔لیکن اپنے بھائی اور قریبی عزیز کی بھارتی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نے عسکری قیادت کو حکومتی موقف سے دور رکھا۔ابھی مشرقی اور مغربی بارڈر پر صورتحال جوں کی توں تھی کہ دھرنا سیاست کاآغاز ہوا۔دھرنا سیاست کے دوران اطلاعات رہیں کہ پورا ادارہ نہیں بلکہ چند سینئر افسران اس معاملے کے پیچھے ہیں ۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے کئی ٹی وی ٹاک شوز میں بھی اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ اور دیگر چند افسران کے بارے میں آئی بی کی رپورٹس کا تذکرہ کیا۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حوالے سے سویلین حکومت کا موقف رہا کہ وہ دھرنا سیاست کے پیچھے نہیں تھے بلکہ 2014 کے دھرنے سویلین اور عسکری قیادت دونوں کے خلاف سازش تھے۔سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد عسکری قیادت کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
اس ساری صورتحال میں یہ خاکسار سول عسکری تعلقات پر کھل کر لکھتا رہا۔عسکری قیادت کے مثبت پہلو کا اچھے الفاظ میں تذکرہ بھی کیا جبکہ منفی معاملات پر کھل کر تنقید بھی کی۔مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے مستند ترین اطلاعات قارئین کے گوش گزار کرتا رہا۔گزشتہ کالم میں جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے اصل حقائق اور بعد کے آنے والے آرمی چیف کے حوالے سے بھی معلومات تحریر کیں۔
روزنامہ جنگ کے قارئین شاہد ہیں کہ یہ طالبعلم گزشتہ تین سال کے دوران بغیر کسی خوف اور دباؤ کے انتہائی جرات سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان اختیارا ت کی جنگ اور سرد مہری پر بے باکی سے لکھتا رہا۔
گزشتہ کالم کے حوالے سے سویلین حلقوں کی طرف سے مثبت ردعمل بھی سامنے آیا جبکہ کچھ حلقوں نے شدید تنقید بھی کی۔لیکن اب طے کیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے ادوار کے تلخ پہلوؤں پر کوئی تنقید نہیں کروں گا۔کیونکہ جو حقائق ان کی مدت ملازمت کے دوران لکھے گئے ۔ا س کا مقصد اداروں کی اصلاح اور جمہوریت کی مضبوطی تھا۔ہمارے ہاں روایت ہے کہ جو شخص ریٹائر ہوجاتا ہے۔ہرایرا غیرا اٹھ کر اس پر تنقید شروع کردیتا ہے۔لوگوں میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ منصب پر موجود شخص کے خلاف بات کریں۔چند ہی ہفتے بعد نظر آجائے گا کہ مختلف حلقے اٹھ کر کیسے گزشتہ تین سالوں کی خامیاں نکال لاتے ہیں۔اسی طرح کے لوگوں نے یہی سلوک سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ کیا تھا۔جب تک وہ منصب پر موجود تھے ،کسی کی جرات نہیں تھی کہ ان پر بات کریں۔ مگر ان کی ریٹائرمنٹ کا سنتے ہی ایسے ایسے لوگوں نے تنقید شروع کی کہ کیا کہنے۔آرمی چیف ریٹائرمنٹ سے ایک گھنٹے پہلے بھی آرمی چیف ہوتا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تلخ حقائق لکھنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ یا تو تنقید ان کے عہدے پر ہونے کے دوران کی جائے یا پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نہ کی جائے۔آئندہ ہفتے کے کالم تک آرمی چیف جنرل راحیل شریف ریٹائر ہوچکے ہونگے اور نئے آرمی چیف منصب سنبھال چکے ہونگے۔مگر حالات جو بھی رہے راحیل شریف کے دور کو لمبے عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔توسیع سمیت جنرل صاحب کے تین سالہ دور پر طویل بحث کی جائے گی۔
مگر ایک بات طے ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک جمہوریت پسند جنرل تھے۔براہ راست مداخلت سمیت جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کے کئی مواقع آئے مگر انہوں نے مشوروں کے باوجود فوج کو سیاسی مداخلت سے دو ر رکھا۔پنجاب میں رینجرز اور ملک میں احتساب کے حوالے سے ان کا اپنا موقف تھا۔جو شاید ماضی میں کبھی بھی فوج کا نہیں رہا۔لیکن اگر کارکردگی کے حوالے سے ممتحن ان کے نتیجے کا اعلان کرے تو بلاشبہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس خاندان میں پہلے صرف دو شہید اور نشان حیدر تھے مگر اب ایک غازی کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔بطور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جو عزت کمائی ،ملکی تاریخ میں کبھی یہ عزت کسی سپہ سالار کے حصے میں نہیں آئی اور اس کی سب سے بڑی وجہ خود کو غیر آئینی اقدام سے دور رکھنا تھا۔
آج پاکستان کی آبادی کی اکثریت اپنی مسلح افواج سے عشق کرتی ہے مگر اس میں ایک بڑی تعداد وہ ہے جو ماضی میں فوج کے سیاسی کردار کی شدید مخالف ہے۔جنر ل راحیل شریف کے دور نے یہ بات ثابت کی ہے کہ جو آرمی چیف خود کو غیر جمہوری اقدامات سے دور رکھے گا،عزت اس کے قدم چومے گی۔باقی میری گزارش ہے کہ جس نے جنرل راحیل شریف کی پالیسیوں پر تنقید کرنی ہے تو ان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے کریں مگر ریٹائرمنٹ کے بعد کسی پر تنقید کرنا کوئی بہادری یا جرات نہیں ہوگی۔باقی جمہوریت کا متوالی ہونے کے ناطے صرف اتنا کہوں گا کہ شکریہ جنرل راحیل شریف۔۔۔۔




.
تازہ ترین