• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم کی جانب سے ہفتے کی شام نئی فوجی قیادت کے تقرر کا اعلان کردیا گیا اور یوں مہینوں سے جاری انتظار اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سال رواں کے اوائل ہی میں اپنے منصب کی میعاد میں توسیع قبول نہ کرنے اور وقت پر ریٹائر ہوجانے کا دوٹوک اعلان کرکے واضح کردیا تھا کہ نومبر میں پاکستان کی زمینی فوج کے نئے سربراہ کا تقرر عمل میں آئے گا۔ماضی کے کئی فوجی سربراہوں کے برعکس جنرل راحیل کا یہ طرز عمل یقیناً نہایت مثالی ومستحسن اور ان کی اصول پسندی کا واضح ثبوت ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے بھی سینئر ترین افسران کی پیش کی گئی فہرست میں سے جنرل زبیر محمودحیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کرکے آئینی طریق کار کے مطابق اپنی ذمہ داری کی تکمیل کی۔ انفینٹری سے تعلق رکھنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے اکتوبر1980ء میں بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا ، شمالی علاقوں کے فورس کمانڈر اور لائن آف کنٹرول کی نگرانی کرنے والی دسویں کور کے کمانڈر رہے جبکہ فی الوقت انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان مناصب پر کام کرنے کی بناء پر جنرل باجوہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے امور کے حوالے سے وسیع تجربہ اور معلومات رکھتے ہیں۔ اکتوبر 1980ء ہی میں آرٹیلری رجمنٹ میں کمیشن حاصل کرنے اور اب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کیے جانے والے جنرل زبیر حیات اس وقت جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے پر تعینات ہیں، کور کمانڈر بھاولپور رہنے کے علاوہ اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن جیسے اہم اور حساس ادارے کے ڈائرکٹر جنرل کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ ان تفصیلات سے یہ واضح ہے کہ پاک فوج کی نئی قیادت بہترین پیشہ ورانہ اور قائدانہ صلاحیت کی حامل ہے اور آج قوم کو بھارت کے جارحانہ طرز عمل، لائن آف کنٹرول پر مسلسل اشتعال انگیزی، مقبوضہ کشمیر کی سلگتی ہوئی صورت حال،پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے مودی حکومت کی سازشوں،ملک کے بعض علاقوں خصوصاً بلوچستان میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات، آپریشن ضرب عضب کے دوران بے گھر ہونے والے افراد کی باوقار طور پر بحالی، کراچی آپریشن کی حتمی تکمیل اورافغانستان سے روابط بہتر بنانے کی ضرورت کی شکل میں داخلی اور بیرونی محاذوں پر جو سنگین چیلنج درپیش ہیں،ان سے عہدہ برآ ہونے میں یہ قیادت نتیجہ خیز کردار ادا کریگی۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ہماری سب سے بڑی ضرورت قومی یکجہتی ہے۔ بنیادی پالیسیوں کے حوالے سے ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کا ایک صفحے پر ہونالازمی ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہی سے ملک میں سول اور ملٹری تعلقات میں بسا اوقات کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت رہی جس کی وجہ سے آئینی نظام کئی بار تعطل کا شکار ہوا اور جمہوریت کے استحکام میں رکاوٹیں حائل ہوتی رہیں۔ ملک کی بنیادی پالیسیوں میں اسی بناء پر تسلسل اور استحکام نہیں رہا اور سیاسی اور فوجی حکومتیں ’’ہرکہ آمد عمارت نوساخت‘‘ کے مصداق بار بار پالیسیاں تبدیل کرتی رہیں جس کے نتیجے میں معیشت اور تعلیم جیسے کلیدی شعبہ ہائے زندگی میں بھی پالیسیوں کا تسلسل قائم نہیں رہ سکا۔پچھلے دور آمریت میں سترھویں آئینی ترمیم جیسے اقدام سے ملک کے متفقہ آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔تاہم پارلیمنٹ نے اٹھارھویں آئینی ترمیم منظور کرکے آئین کواصلی شکل میںبحال کیا جس کے بعد سے بتدریج آئین کی حکمرانی میں بہتری آرہی ہے۔ ریاستی اداروں کو باہمی تصادم سے محفوظ رکھنے اور ہم آہنگی کے ساتھ چلنے کیلئے ضروری ہے کہ سب اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں اور ان حدود سے تجاوز سے مکمل طور پر گریز کریں۔درپیش چیلنجوںسے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کا یہی واحد طریقہ ہے اور قوم توقع رکھتی ہے کہ نئی فوجی قیادت سمیت تمام ریاستی ادارے اس اصول کی مکمل پابندی کرکے قومی فلاح اور خوشحالی کی راہ ہموار کریں گے۔

.
تازہ ترین