• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئین میں دی گئی ضمانتوں کے باوجود وفاق اور صوبوں میں حقوق اختیارات اور وسائل کی تقسیم کسی نہ کسی تناظر میں ہمیشہ باعث نزاع رہی ہے جس کی وجہ سے صوبوں میں بے چینی اور بعض صورتوںمیں مرکز گریز رحجانات کو تقویت بھی ملی صوبے وفاق سے قابل تقسیم وسائل اور محصولات میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ حصہ مانگتے ہیں اس ضمن میں کوئی اپنی آبادی کوئی رقبے کوئی آمدنی اور کوئی پسماندگی کو بنیاد بناتا ہے وفاق بھی اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے معقول حصے کا دعویدار ہے بظاہر سب کے تحفظات اپنی اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں اس لئے 1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے مناسب سمجھا کہ ایک نیشنل فنانس کمیشن تشکیل دیا جائے جو وفاق اور صوبوں کے استحقاق کا تعین کرے اقتصادی ماہرین کی تحقیق اور رائے کے مطابق صوبوں کے حصص کا فیصلہ کرے اور ایوارڈ جاری کرے اس وقت ملک میں ساتواں این ایف سی ایوارڈ نافذالعمل ہے ۔اس کے تحت صوبوں کیلئے 82اعشاریہ 98فیصد مالی گرانٹس کی منظوری دی گئی جن میں سے پنجاب تقریباً 51.74فیصد سندھ 24.55خیبر پختونخوا 14.62اور بلوچستان 9.9فیصد ریونیو شیئرز کا حقدار ہے۔ یہ شیئرز ان کی کارکردگی کی بنیاد پر مقرر کئے گئے ہیں ان میںسے دس فیصد شیئرز غربت کے خاتمے کیلئے مختص ہیںاس ایوارڈ کی مقررہ میعاد 30 جون 2015ء کو ختم ہو چکی ہے جس کے بعد نیا ایوارڈ، نئی زمینی حقیقتوں کے مطابق آنا چاہئے تھا مگر حکومت نے اس کی بجائے موجودہ ایوارڈ میں ہی توسیع کر دی جو بجائے خود اس اہم معاملے میں اس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اس وقت بھی صوبے زیادہ مالی خود مختاری اور مزید وسائل کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ وفاق آئی ایم ایف کے مشوروں کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ میں صوبوں کو بھی شراکت دار بنانا چاہتا ہے اس پس نظر میں پیر کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کمیشن کے رکن ہیں مگر سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر اجلاس میں شریک نہیں ہو ئے ان کی نمائندگی نامزد ارکان اور سرکاری افسر کر رہے ہیں گزشتہ 20ماہ میں کمیشن کا یہ تیسرا اجلاس ہے جبکہ آئین کے تحت کمیشن کی دو پروگریس رپورٹیں ہر سال پارلیمنٹ میں پیش ہونی چاہئیں اس سے اندا زہ لگایا جا سکتا ہے کہ کمیشن اپنے فرائض کی انجام دہی میں کتنا سست رفتارہے سندھ کا مطالبہ ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ سے پہلے نئے ایوارڈ کا اعلان کرے وہ کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے اخراجات تیل و گیس کی پیداوار کی رائلٹی اور جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی کا اختیار مانگ رہاہے جبکہ بلوچستان سی پیک میں سرمایہ کاری اور محاصل میں اپنے حصے کے علاوہ رقبے کے لحاظ سے اپنے مالیاتی شیئر میں اضافے کا تقاضا کر رہا ہے خیبر پختونخوا بھی دوسرے مطالبات کے علاوہ غربت کی بنیاد پر اپنے حصے میں 15 فیصد اضافےکا خواہش مند ہے ادھر وفاق چاہتا ہے کہ صوبے دہشت گردی کے خلاف جنگ قدرتی آفات آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کی مالی ضروریات پوری کرنے میں بھی اپنا حصہ ادا کریں اس اعتبار سے اپنے انتظامی امور اور ترقیاتی و فلاحی منصوبوں کے لئے مالی حیثیت مستحکم بنانے کی غرض سے وفاق اور صوبوں میں مقابلے کی فضا جاری ہے پیر کا اجلاس اس سلسلے میں بہت اہم تھا اجلاس میں ورکنگ گروپس کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اجلاس کو مفید اور حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔ملک کے چاروں صوبے مل کر وفاق کے گل دستے کو مکمل کرتے ہیں ملک کی سلامتی امن و استحکام اور اقتصادی ترقی میں سب کا یکساں کردار ہے مسائل بھی سب کے سانجھے ہیں جنہیں حل کرنے کے لئے وسائل کا منصفانہ استعمال سب کی یکساں ذمہ داری ہے توقع ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس کے نتیجے میں نئے مالیاتی ایوارڈ کی راہ ہموار ہو گی جو صوبائی کی بجائے قومی سوچ کا آئینہ دار ہو گا اور قوم اجتماعی ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند ہو گی۔

.
تازہ ترین