• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سارا چکر ہی الٹا چل پڑا ہے۔ شہر کے بڑے بڑے شاپنگ مالز میں خالص چکی کا آٹا، خالص مکھن، خالص دیسی گھی،خالص دیسی انڈے اور خالص دودھ کے بورڈ آویزاں ہوگئے ہیں۔ ایک دور تھا جب یہ چیزیں صرف خالص گائوں میں ہی ملا کرتی تھیں‘ لیکن گائوں والے آہستہ آہستہ شہری ہوتے جارہے ہیں۔اب آپ کو گائوں میں بھی ڈبل روٹی ، کافی، چائے اور کولڈ ڈرنکس آسانی سے مل جاتی ہیں۔گائوں کی چھوٹی سی دکان پر کوئی بابا فضلو بھی شہری چپس کے پیکٹ اور چاکلیٹ والے بسکٹ رکھے بیٹھا ہوتاہے۔اب گائوں میں کوکنگ آئل استعمال ہوتاہے اور شہر والے دیسی گھی کے شیدائی ہوتے جاتے ہیں۔اگلے وقتوں میں زیادہ کھانے والے کو پینڈو کہا جاتا تھا، آج کل یہ شہری ہونے کی علامت ہے۔چارچار منزلہ ٹاور برگر عام ملتے ہیں جنہیں دیکھتے ہی میرے جیسے بندے کے ذہن میں پہلا خیال یہی ابھرتا ہے کہ اسے’چک‘ کیسے مارا جائے۔اب شہری لڑکے لڑکیاں کھانے کے ذکر پر پرجوش ہوجاتے ہیں، جو جتنا پیٹو ہے اتنا ہی ماڈرن ہے۔
لباس نے بھی الٹا چکر کھایا ہے، پہلے گائوں میں لوگ پتلی سی دھوتی پہنتے تھے، آج کل شہروں میں شارٹس کا رواج چل پڑا ہے۔اگر آپ کو شاپنگ مال میں کوئی صاحب تقریباً گھٹنوں تک شارٹ پہنے ‘ اوپر بیزار سی ٹی شرٹ ‘ پائوں میں قینچی چپل اور ہاتھ میں جوس کا پیکٹ پکڑے نظر آئیں تو آپ کا فرض ہے کہ آپ فوراً انہیں دولت مند تسلیم کریں۔پہلے شہر کے لوگ کوٹ پینٹ پہننا پسند کرتے تھے، اب گائوں کی شادیوں میں آپ کو پانچ سال کا بچہ بھی چمکدار کوٹ پینٹ پہنے ’بے بے‘ کی گود میں اٹکا نظر آتاہے۔اب وہ گائوں نہیں رہے جہاں پینٹ پہنے بندے کو دیکھ کر کتے پیچھے پڑ جایا کرتے تھے، جینز کلچر گائوں میں بھی قدم جما چکا ہے، اب گائوں کے لڑکے بھی جینز پہنتے ہیں اورشہری بننے کے چکر میں چھ چھ مہینے پینٹ نہیں دھلواتے!!!
گائوں کی ایک نشانی وہاں کے لڑکے بالوں کی ’ڈیک‘ میں بے پناہ دلچسپی بھی ہوا کرتی تھی۔ ایک دوسرے سے حسد کی بنیادی وجہ یہ ہوا کرتی تھی کہ فلاں کے پاس تین ٹیوٹر والا اسپیکر ہے اور فلاں نے جہازی سائز کا ڈیک لیا ہے۔اب اس کی جگہ موبائل نے لے لی ہے،جتنے اسمارٹ فون گائوں والوں کے پاس ہوتے ہیں اتنے تو شاید کمپنی بناتی بھی نہیں۔جب سے کیبل نے گائوں کا رخ کیا ہے وہاں کی خواتین بھی ’دیسی سوپ‘ سے نکل کر ’سوپ سیریل‘ سے متعارف ہوگئی ہیں۔پہلے گائوں کے لوگ مٹکے اٹھا کر کنویں سے پانی لینے جاتے تھے اب شہر کے لوگ 19 لٹر کی بوتلیں بھروانے جاتے ہیں۔گائوں کی سڑکیں اور مکان پکے ہوگئے ہیں اور شہروالے خوشی خوشی پلان بناتے ہیں کہ اس بار کسی گائوں کی سیر کو چلتے ہیں۔شہر وں میں مکئی اور ساگ کی روٹی بھی کمرشل بنیادوں پر دستیاب ہے ۔ کئی شہروں میں دیہاتی طرز کے ماڈرن ہوٹل بھی وجود میں آچکے ہیں جبکہ گائوں والوں پر شہری ہونے کا جنون سوار ہے۔قتلمے کی جگہ پیزے نے لے لی ہے، گائوں والے بھی فیس بک پر آگئے ہیں ۔شہری مائیں اپنے بچوں کو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں کہ ’مرو کدی تے فیس بک دا کھیڑا چھڈ دیا کرو‘…اور گائوں میں مائیں فخر سے بتارہی ہوتی ہیں کہ ’رشید نوں اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنا آگیا اے‘…!!
شہری لوگ کھلے دالان کو ترس رہے ہیں، فارم ہائوس بنانے کے شوقین ہیں اور گائوں والے زمینیں بیچ بیچ کر ہائوسنگ سوسائٹیوں میں بدل رہے ہیں۔شہر والے اپنے پانچ مرلے کے مکانوں کے باہر چھ چھ فٹ کے لان میں پودے لگاتے پھرتے ہیں اور گائوں والے شیشم کے سایہ داردرخت کی محبت چھوڑ کر لینٹر والے گھروں پر فدا ہورہے ہیں۔پہیہ واقعی گھوم گیا ہے…گائوں والے بچے کو انگریزی سکھانے کے درپے ہیں اور شہر والے اُردو کی ٹیویشنیں ڈھونڈتے پھررہے ہیں۔شہروالوں کے بچے کاروباری بن رہے ہیں اور گائوں سے انجینئرز اور ڈاکٹرز کی لاٹ پہ لاٹ آتی جارہی ہے۔
گائوں میں کھیل کے انداز بھی بدل گئے ہیں، وہ دور گیا جب دیہاتی لوگ ’کیڑی کاڑا اور بارہ ٹہنی‘ کھیلا کرتے تھے اب توگائوں کے گلی کوچوں میں اسنوکر اور بلیئرڈ کی ٹیبلیں بھی جابجا نظر آتی ہیں اور پیسے لگا کر گیم کھیلا جاتا ہے، یوں یہ خالصتاً ایلیٹ کلاس کا کھیل بھی جوئے کی نذر ہوگیا ہے۔اب گائوں میں باسکٹ بال بھی بہت کم کھیلا جاتا ہے، فٹ بال کے پلیئر بھی زیادہ تر وہی نظر آتے ہیں جو موبائل پر فٹ بال کھیلنے کے چیمپئن ہیں۔وہ گائوں جو شام سات بجے نیند کی گہری آغوش میں چلا جایا کرتا تھا وہاں بھی اب رات کے بارہ ایک بجے تک جاگنا معمول بنتا جارہا ہے۔اب گائوں کی لڑکیاں بھی فیشن سے واقف ہیں،اب گائوں میں بھی تھریڈنگ، ویکسنگ، پیڈی کیور اور مینی کیور کی سہولت دستیاب ہے۔گائوں کی لڑکیوں کی اکثریت گائوں میں شادی کے لئے تیار نہیں، انہیں بھی گھر بسانے کے لئے شہری ماحول درکار ہے۔شہری لوگ دیسی نسخوں کے قائل نظر آتے ہیں اور گائوں والے مہنگے ڈاکٹر کے۔ہائی بلڈ پریشر، شوگر، ڈپریشن ،ٹینشن اورہارٹ پرابلمز اب گائوں والوں کی زندگی کا بھی حصہ بنتی جارہی ہیں‘ مچھر اب دیہاتیوں کو نہیں شہریوں کو کاٹنے لگا ہے۔گائوں والے شیمپو اور شہر والے سرسوں کا تیل پسند کرنے لگے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ خالص پن ختم نہیں ہوا صرف اِدھر سے اُدھر منتقل ہوگیا ہے۔شہر اور گائوں والے دونوں ہی اپنی زندگی کی یکسانیت سے اکتا گئے ہیں تاہم گائوں والے شہری بن سکتے ہیں، شہر والے مزید شہری بننے سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔نسلیں جوان ہوچکی ہیں اورجو نسل جس ماحول میں جوان ہوئی ہے اسی کی باغی ہوتی جارہی ہے۔میرے ایک بہت عزیز دوست ابھی تک گائوں میں رہتے ہیں ، کبھی کبھار ان کے پاس جانا ہوتا ہے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ شہروں سے نکالے ہوئے ’ونڈو اے سی‘ گائوں میں لگ چکے ہیں۔اب گائوں والوں کو بھی گرمی لگتی ہے، وہ بھی سخت گرمی میں اے سی کے مزے لوٹتے ہیں۔پہلے گائوں میں کمی کمین ہوتے تھے(مجھے اس لفظ سے شدید نفرت ہے) لیکن اب ہر کوئی چوہدری ہے۔اب فصل کی کٹائی کے لئے پورا گائوں نہیں امڈ آتا، مزدوری کرنے والے شہرکو سدھارے۔
پہیہ کیا گھوما، ہر چیز گھوم گئی۔ ٹنڈ کروانا صرف دیہاتیوں کے نصیب میںہوا کرتا تھا، اب امیر گھرانوں کے شہری لڑکے بھی ٹنڈ کے شوقین ہوگئے ہیں۔گائوں کے جن گھروں میں آٹا پیسنے والی چکی موجود ہے اس کا مقدر گھر کا کوئی بے کار سا کونا بن چکا ہے۔اب لسی چاٹی میں ڈال کر مدھانی سے نہیں ’رڑکی‘ جاتی بلکہ اس کام کے لئے گرائنڈر کی خدمت حاصل کی جاتی ہیں۔ہانڈی کی جگہ پریشر ککر نے لے لی ہے ۔اب گائوں میں کوئی پرانی مائی سیویاں نہیں ’وٹتی‘۔جسم پر چوٹ لگ جانے کی صورت میں دودھ میں ہلدی ڈال کر کوئی نہیں پیتا…میڈیکل اسٹور پر جاتے ہیں، پین کلر لیتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔اب گائوں والوں کو بھی موبائل کا پیکج لگانا آگیا ہے…دیسی مرغی اب شاید گائوں والے بھی نہیں کھاتے، جگہ جگہ برائلر چکن کی دکانیں ہیں۔شہر زہر بنتے جارہے ہیں اور گائوں شہر…اینٹی کلاک وائز…!!!


.
تازہ ترین