• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سو دن سے زائد گز رچکے لائن آف کنٹرول پر جاری بھارتی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کا سلسلہ طول پکڑتا جارہا ہےجس نے کئی سوال پیدا کردئیے ہیں۔کیا بھارت واقعی جنگ کے بخار میں مبتلا ہوچکا ہے؟اگر جنگ ہوئی تو کیا یہ روایتی ہوگی یا غیر روایتی ؟اگر یہ غیر روایتی ہوگی تو کیا یہ ایٹمی جنگ ہوگی؟کیا یہ یقین کر لینا چاہئے کہ پاک بھارت ایٹمی جنگ ناگزیر ہوچکی ہے؟کیا یہ بی جے پی کا سیاسی اسٹنٹ ہے؟ کیایہ اسٹنٹ آئندہ انتخابات میںبھارتیہ جنتا پارٹی کی یقینی شکست کا باعث بنے گا؟یہ گرم ترین سوالات پاک و ہند سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے بھارتی دماغ سوچ کیا رہے ہیں اور کن مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ان پر روشنی ڈالنا بہت ضروری ہے۔ جنگی جنون اور شدت پسندی کو ہوا دیکر بھارتیہ جنتاپارٹی مودی کی قیادت میںحکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔اسی سوچ کو بڑھاوا دیتے ہوئے اس نے مختلف پالیسی کارڈز ترتیب دئیے تھے۔ اس ضمن میں پہلے سشما سوراج اور اس کے بعد مودی نے پاکستان کے دورے بھی کئے۔پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے بھارت نے روس کو نظر انداز کرکے امریکہ اور چین سے قربت پانے کیلئےمتعدد معاہدات کئے جس پر روسی پالیسی ساز بھارت سے ناراض ہوگئے اور انھوں نے پاکستان کے قریب ہونے کی پالیسی کا آغاز کردیا پاکستان نے بھی گرم جوشی سے روس کو خوش آمدید کہا جس پر بھارت نئی بے چینی کاشکار ہوگیا۔اسی اثنا میں چین نے پاکستان میں سی پیک اور گوادرمنصوبے کا اعلان کرکےبھارتی ارمانوں پر بجلی گرادی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے چا بہار پورٹ منصوبے کو ناکام ہوتا دیکھ کر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا فیصلہ کرلیالیکن مقبوضہ کشمیر کے باسیوں نے 2016میں بھارتی استبداد میں مزید جکڑے نہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئےجدوجہد آزادی کو حتمی شکل دینے کا اعلان کر کےبھارت کو بڑی مشکل میں مبتلا کردیا۔
جس پر بھارتی فوجوں نے کشمیری عوام پر تشدد کا نیا ریکارڈ بنانا شروع کردیا اور کشمیری قیادت کو نظر بند کردیا۔بین الاقوامی سطح پرپاکستان کی طرف سے کشمیر یوں کی بھرپور حمایت سے بھارت سخت پریشان ہے۔ انسانی حقوق کی شدید ترین بھارتی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں میں ملوث ہونے کے بارے میں آگاہی دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہےجس پر بھارت شدید دبائو اوربے چینی کا شکار ہے۔بھارت میں مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف رد عمل سامنے آرہاہے۔پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عوامی سطح پر پاکستان کے ساتھ کرکٹ نہ کھیلنے اور پاکستانی فنکاروں کو بھارتی فلموںمیں کام کرنے کی اجازت نہ دینے کے خلاف عوام اور میڈیا کی سطح پر بھارت میں آوازنہ صرف اٹھائی جارہی ہے بلکہ یہ مسلسل بلند ہورہی ہے۔ اتنی بڑی شکست کے باوجود مودی حکومت نے انڈیا میں پاکستانی چینلز پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔جس کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان میںبھی بھارتی فلموں اور چینلز پر پابندی لگا دی گئی جسے خوب عوامی پذیرائی ملی ہے۔کشمیر میں اخلاقی جنگ میں شکست سے اور پاکستان میںسی پیک کے شاندار آغازہونے کےبعد بوکھلا کر بھارت نے لائن آف کنٹرول پر بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا نا شروع کردیا ہے جو لائن آف کنٹرول سے متعلق عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہےجس پر اسے مذمت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان پر دہشتگردی کے نت نئے الزامات، سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے جھوٹے ثابت ہونے کے بعد مودی حکومت نے عالمی بڑا بننے اورایٹمی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کیلئے سرتوڑ کوششیں شروع کردی ہیں۔ لیکن اس ضمن میں بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔پے درپے ناکامیوں کے بعد ایک مفروضے پر مبنی کارڈ کھیلتے ہوئے اوراندرونی اقتصادی محاذ پر طاقت حاصل کرنے کیلئے بھارتی حکومت نے دو ہفتے قبل پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹ منسوخ کردینے کا اعلان کیا جس پرپورے بھارت میں بینکوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں ستر سے زائد افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔وزیر اعلیٰ جنوبی بنگال ممتا بینر جی نے اسے ڈرامہ قرار دیدیا۔ورلڈ بینک کے سابق چین اکانومسٹ کوشک باسو کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے فوائد اتنے نہیں ہوں جتنے نقصان ہوں گے۔چھ بھارتی ریاستوں میں انتخابات میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو آئندہ الیکشن میں عوامی سطح پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہوسکتا ہے کہ اسے تاریخی شکست فاش ہوجائے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور سی پیک کی کامیابی اسکی بدترین ناکامیاں ہیں لہٰذا وہ سیاسی کامیابی کیلئے محض لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں تک ہی محدود رہے گا کیونکہ روایتی جنگ کے شروع ہوتے ہی ممبئی اسٹاک مارکیٹ بیٹھ جائے گی اور بھارت دیوالیہ ہوجائیگا اور ایٹمی جنگ کی نوبت ہی نہیں آئیگی۔

.
تازہ ترین