• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گرمیاں چلی گئیں، سردیاں آنے کا نام نہیں لے رہیں اور بارشیں خوشحالی کی طرح روٹھی ہوئی یعنی موسم لاء اینڈ آرڈر کی طرح خراب اور بیزار کن۔ بندہ خود نزلے، زکام، کھانسی کے نرغہ سے نکل بھی آئے تو ملاقاتی یہ ’’سوغاتیں‘‘ لئے آتے ہیں حالانکہ ایسی حالت میں قید تنہائی کو ترجیح دیتے ہوئے میل ملاپ سے گریز کرنا چاہئے۔ مختصراً یہ کہ موجودہ موسم بھی جمہوریت کی طرح بہترین انتقام سے کسی طرح کم نہیں۔سونے پر سہاگہ یا نہلے پہ دہلہ یہ کہ اتنے کام ’’پینڈنگ‘‘ ہیں کہ خوف آتا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کروں۔ ایک طرف پاناما کیس کا اگلا موڑ او رمرحلہ سر پر ہے کہ زندگی میں بلیک اینڈ وائٹ کےساتھ ساتھ ’’گرے‘‘ بھی ہوتا ہے۔ دوسری طرف عرفان صدیقی کی کتاب ’’یاران وطن‘‘ کا مسودہ دیباچے کا منتظر ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ نواز شریف فیم اور طالبان فین عرفان صدیقی نہیں، جاپان بلکہ ٹوکیو فیم عرفان صدیقی ہے جس کا جاپان سے آیا ہوا کیوٹ اور پھینا سا کالم آپ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں پڑھتے ہیں۔ پھر ایک سینئر بیورو کریٹ اور جونیئر شاعر جاوید انور کا شعری مجموعہ ہے ’’اگر تم لوٹنا چاہو‘‘ جس کی نظمیں، غزلیں عنوان کی طرح خوبصورت ہیں۔ محمد دائود غزنوی کی کتاب ہے "THINKING AHEAD"اور بیشک ہمارے ہاں ایسی کتابیں لکھنے کا رواج کم کم ہے۔لیکن میں نے ایک بالکل ہی مختلف قسم کے موضوع کا انتخاب کیا جو ہمیشہ سے میرے دل کے بہت قریب ہے۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرہ کا حصہ ہیں جس میں کام کرنے والے بلکہ یوں کہئے کہ ہاتھ سے کام کرنے والے کو ’’کمی کمین‘‘ اور حرام کھانے والے کو ’’چوہدری‘‘ کہا جاتا ہے حالانکہ ایک اعلیٰ درجہ کا دست کار بھی کسی فنکار سے کم نہیں ہوتا لیکن بیہودہ قسم کے کومپلیکسز میں مبتلا اس معاشرہ میں لوگ بیکار، بے معنی ایف اے، بی اے پاس کرنے کو ہنر حاصل کرنے پر ترجیح دیتے ہیں اسی لئے مختلف شعبوں میں جینوئن اور پائے کے ہنر مندوں کے قحط کی سی صورت پیدا ہو رہی ہے کیونکہ ’’اے کلاس‘‘ ہنر مند، کاریگر اکثر بیرون ملک سدھار جاتے ہیں اور جو ’’بی کلاس‘‘ یا ’’سی کلاس ‘‘ لوگ باقی رہ جاتے ہیں وہ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ اپنے بعد آنے والوں کو عمدہ تربیت دے سکیں۔ایسے میں ’’نیشنل ووکیشنل ٹریننگ کمیشن‘‘ (نیو ٹیک) ایک ایسا زبردست ادارہ ہے جس کو پاکستان میں ٹیکنیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن اور ٹریننگ (TVET)کے اہم ترین میدان میں نگرانی، اصلاحات، ریگولیشن اور کوآرڈی نیشن جیسے انتہائی اہم معاملات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ 50سال سے زیادہ عرصہ برباد کرنے کے بعد ہی سہی، شکر ہے کہ کسی کو ہوش تو آیا TVETسیکٹر کی اہمیت اور افادیت کا احساس تو ہوا۔پاکستان 20کروڑ پلس افراد پر مشتمل ہے جس کا 65فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ جاندار عددی قوت پاکستان کا شاندار اثاثہ ہے بشرطیکہ اس قوت کو صحیح سمت کی طرف موڑ دیا جائے بصورت دیگر یہی اثاثہ بہت بڑا بوجھ بھی بن سکتا ہے۔ صحیح سمت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ایسے ہنر سکھائیں جن کی قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں بھرپور مانگ ہو۔ یہ ’’تعلیم‘‘۔۔۔ جی ہاں ’’تعلیم‘‘ اوور ہیڈز، انڈر پاسز، میٹروز، اورنج ٹرینوں، چکنی چوڑی شاہراہوں سے کئی گناہ زیادہ مثبت تعمیری، اہم ضروری اور فیصلہ کن ہو گی۔ کیا کرنی ہیں وہ میٹروز اورنج ٹرینیں اور پل یا سڑکیں جہاں بے علم، بے ہنر، بے کار، بے روزگار لوگوں کے ’’ریوڑ‘‘ یا ’’غول‘‘ آوارہ پھر رہے ہوں۔ میں نے سوچ سمجھ اور جان بوجھ کر ’’بے کاری‘‘ اور ’’بے روزگاری‘‘ کو علیحدہ علیحدہ لکھا ہے کیونکہ یہ دو مختلف قسم کے دکھ اور اذیتیں ہیں۔ ’’جس تن لاگے وہ تن جانے‘‘ والی بات ہے۔ اس ملک کے نوجوانوں کو بھی چاہئے ہر قسم کے احساس کمتری پر لعنت بھیج کر، وائٹ کالر کلرکیوں کو ٹھوکر مار کر ہنر سیکھنے کی طرف متوجہ ہوں کہ سپاہی کی بندوق، مصنف یا منصف کا قلم، موسیقار کا وائلن، مصور کا برش اور ماہر تعمیرات کا نقشہ بھی ’’دست کاری‘‘ ہے۔ لوہار یا کمہار کسی قلمکار سے کم نہیں ہوتا اگر اپنے ہنر میں یکتا ہو۔ ’’نیو ٹیک‘‘ نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مل کر اصلاحات کا آغاز کیا ہے۔ ’’نیشنل سکل اسٹرٹیجی ‘‘بنائی گئی ہے۔ TVETاور صنعتی دنیا کے درمیان فاصلے ختم کرنے کے لئے صنعت کاروں کو اس میں باقاعدہ حصہ دار بنایا جا رہا ہے، نصاب کو بھی عالمی معیار تک لایا جا رہا ہے اور ٹریننگ کی کوالٹی کو بین الاقوامی معیار تک پہنچایا جا رہا ہے۔ تربیت مکمل کرنے والے ہنر مند نوجوانوں کا ڈیٹا ملک کے تمام چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ بیرون ملک بڑے بڑے کاروباری اداروں سے بھی ڈیٹا شیئر ہو رہا ہے تو نوجوان نکلیں۔۔۔ اس ملک سے بیروزگاری اور بیکاری کو شکست دینے والے جہادی لشکر کا ہراول دستہ نہیں۔ مجھے یقین ہے ذوالفقار چیمہ جیسے سربراہ کی موجودگی میں یہ معجزہ ممکن ہے کیونکہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے کہتے ہیں۔’’جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے‘‘۔




.
تازہ ترین