• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ایک دہائی سے زائد فیڈریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بینکنگ، کریڈٹ اینڈ فنانس کے چیئرمین کی حیثیت سے فیڈریشن کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی میں نے وزیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور ملکی و غیر ملکی 20 بینکوں کے صدور کے ساتھ FPCCI میں ایک اہم سالانہ میٹنگ منعقد کی جس میں ایف بی آر کے نئے چیئرمین نثار محمد، ملک کے ممتاز ایکسپورٹرز، صنعتکار، بزنس لیڈرز، مختلف چیمبرز اور ٹریڈ ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے ساتھ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنرز، منیجنگ ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹو ڈائریکٹرز شریک تھے جبکہ بزنس کمیونٹی کی نمائندگی میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر میاں محمد ادریس، سینئر نائب صدر اور نائب صدور، ٹی ڈیپ کے سی ای او ایس ایم منیر، یو بی جی کے چیئرمین افتخار علی ملک، زبیر طفیل، عبدالرئوف عالم، ممتاز ایکسپورٹرز، صنعتکاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے لاہور، اسلام آباد سے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر میں نے وزیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور ان کی ٹیم کو انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی جانب سے پاکستانی بینکنگ سسٹم کی ریٹنگ کو منفی سے مستحکم کرنے پر مبارکباد دی جو ریگولیٹر کی حیثیت سے اسٹیٹ بینک کی پروڈنشل پالیسیوں پر ان ایجنسیوں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ اس موقع پر بزنس کمیونٹی نے نثار محمد کو ایف بی آر کا نیا چیئرمین مقرر کرنے پر وزیر خزانہ کے اقدام کو سراہا۔ میرے دوست نثار محمد جنہیں میں کراچی میں کسٹم کلکٹر کی حیثیت سے ایک دہائی سے جانتا ہوں، نہایت ایماندار بزنس فرینڈلی شخصیت ہیں، اس لئے میں نے انہیں چیئرمین ایف بی آر کے منصب پر فائز ہونے کی سب سے پہلے ایڈوانس مبارکباد پیش کی۔
قارئین! پاکستانی بینکنگ نظام میں کھاتے داروں کا سرمایہ محفوظ ہے مگر بینک زیادہ منافع کمانے کیلئے حکومتی ٹریژری بانڈز میں اونچے شرح منافع پر محفوظ سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے نجی شعبے کو قرضے دینے کیلئے ان کے پاس مطلوبہ فنڈز دستیاب نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ ہمارے بینکوں میں ڈپازٹ اور قرضوں کی شرح سود میں بہت زیادہ فرق ہے جس کا اندازہ ان بینکوں کے اربوں روپے کے سالانہ منافع سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے قرضوں پر سود کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے معیشت کا یہ اہم سیکٹر پاکستان میں فروغ نہیں پاسکا۔ میں نے وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ میں 3.5% کمی کے بعد ڈسکائونٹ ریٹ 6% کردینے کے باوجود نجی شعبوں کے قرضوں میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ جولائی سے اکتوبر 2015ء کے دوران نجی شعبوں کے قرضوں میں 63% کمی ہوئی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نجی شعبہ اپنی صنعتی و معاشی سرگرمیوں کو پھیلانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ بینکنگ سیکٹر کا سب سے بڑا قرضوں کا شعبہ ٹیکسٹائل بحران کا شکار ہے اور ملک میں بے شمار ٹیکسٹائل ملز صرف 60%سے 70% کی پیداواری صلاحیت پر کام کررہے ہیں۔ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس متواتر گر رہی ہیں جبکہ خطے کے دوسرے ممالک کی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ میں نے گورنر اسٹیٹ بینک سے سوال کیا کہ ایک کامیاب مالیاتی (مانیٹری) کا مقصد افراط زر کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی گروتھ کو تیز کرنا ہوتا ہے جبکہ ہماری گروتھ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل اور کموڈیٹی کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہمارا افراط زر (CPI) گزشتہ ایک سال میں 8.4% سے کم ہوکر اگست 2015ء میں 3.6% ہوگیا تھا اور اس طرح اسٹیٹ بینک نے افراط زر کو کنٹرول تو کرلیا ہے لیکن معاشی گروتھ میں تیزی نہ لاسکا۔صنعتی شعبے کے علاوہ زرعی شعبہ بھی بحران کا شکار ہے۔ عالمی مارکیٹ میں چاول کی قیمتوں میں کمی کے باعث اس سال ہماری چاول کی ایکسپورٹس بری طرح متاثر ہوئی ہے اور چاول کے تاجروں کو بھاری مالی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سال کپاس کی کم رقبے پر کاشت ہونے کی وجہ سے کپاس کی پیداوار کم متوقع ہے لہٰذا حکومت کو زراعت کے شعبے میں ریفارمز لانا ہوں گی تاکہ یہ اہم شعبہ ملکی معیشت میں اپنا جائز کردار ادا کرسکے۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ 3 وجوہات کی بنیاد پر پاکستان دنیا میں اس وقت سرمایہ کاری کیلئے ایک پرکشش ملک بن گیا ہے۔ پہلے نمبر پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کی کامیابی ہے اور ملک بالخصوص کراچی میں امن و امان کی بہتر صورتحال نے خطے کے لوگوں کو دوبارہ اس معاشی و کمرشل حب میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کررہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر پاکستان کی بہتر معاشی کارکردگی ہے جس میں زرمبادلہ اور بیرونی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ، افراط زر اور بجٹ خسارے میں نمایاں کمی، روپے کی قدر میں استحکام جیسے مثبت معاشی اشارے شامل ہیں جن کی بنیاد پر انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی ریٹنگ کو بڑھاکر مستحکم قرار دیا ہے اور تیسرے نمبر پر پاک چائنا معاشی راہداری کے 46 ارب ڈالر کے منصوبے جو دنیا کیلئے پیغام ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان خطے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔
قارئین! پاکستان کی 1999ء کے مقابلے میں 2015ء میں معاشی کارکردگی کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جی ڈی پی جو 1999ء میں صرف 75 ارب ڈالر تھی، رواں سال 272 ارب ڈالر، فی کس آمدنی 450 ڈالر سے بڑھ کر 1513ڈالر، ریونیو کی وصولی 305 ارب روپے سے بڑھ کر 2065ارب روپے، زرمبادلہ کے ذخائر 1.96 ارب ڈالر سے بڑھ کر 19ارب ڈالر، ایکسپورٹس 8.5 ارب ڈالر سے 25 ارب ڈالر، ٹیکسٹائل ایکسپورٹس 5.5 ارب ڈالر سے بڑھ کر 13ارب ڈالر، کراچی اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس میں سرمایہ کاری 5 ارب ڈالر سے بڑھ کر 26.5 ارب ڈالر ہوگئی ہے لیکن غیر ملکی سرمایہ کاری جو 2007-08ء میں 8.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی، رواں مالی سال کم ہوکر صرف 709ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ غیر ملکی قرضوں میں بھی بہت اضافہ دیکھنے میں آیا جو 39 ارب ڈالر سے بڑھ کر 56 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اسی طرح غربت، خواندگی اور دیگر شعبوں میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ میں نے روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے بارے میں وزیر خزانہ کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ مارکیٹ میں یہ خبریں ہیں کہ آئی ایم ایف کی نظر میں روپے کی موجودہ قیمت اس کی قدر سے زیادہ ہے اور آئی ایم ایف روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں 115روپے تک دیکھنا چاہتا ہے لیکن ایسا کرنے سے مہنگائی اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگا۔
میں نے گورنر اسٹیٹ بینک اور ان کی ٹیم کو ان مشکل حالات میں ایکسپورٹرز کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ وزیر خزانہ نے روپے کی قدر کے بارے میں افواہوں کی تردید کی اور بتایا کہ انشاء اللہ جلد ہی ہمارے بیرونی ذخائر میں مزید اضافہ متوقع ہے اور وہ پاکستانی روپے کو مستحکم رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بینکنگ ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس کے مسئلے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد اکائونٹس کی ریگولرائزیشن پالیسی کا اعلان کرنے والے ہیں جس کے تحت ٹیکس نادہندگان معمولی ٹیکس دے کر اپنی رقوم جائز بناسکتے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر اس اسکیم کو اپنانے والے اشخاص کو ماضی اور آئندہ 3 سال آڈٹ سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز ہے۔ ایس ایم منیر نے وزیر خزانہ کو بتایا کہ ایکسپورٹرز کے اربوں روپے کے ریفنڈ ایف بی آر میں پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔فیڈریشن کے صدر میاں محمد ادریس نے وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کا خیر مقدم کرتے ہوئے بتایا کہ FPCCI معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کررہی ہے تاکہ ملک میں ٹیکس کلچر فروغ پائے۔ معاشی اور صنعتی گروتھ کیلئے بینکنگ، مانیٹری اور فسکل پالیسیوں کے جائزے کے اعتبار سے یہ اعلیٰ سطحی میٹنگ نہایت کامیاب تھی جس میں پاکستان میں معاشی و صنعتی گروتھ کیلئے اہم تجاویز پیش کی گئیں جن پر عملدرآمد سے ملکی ترقی وابستہ ہے۔
تازہ ترین