• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اگر کسی موضوع پر بحث ہو رہی ہے تو وہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا موضو ع ہے اور بلا تفریق مذہب ، مسلک ، رنگ ، نسل دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ہر کوئی متاثر ہو رہا ہے۔گزشتہ دنوں مختلف مذاہب کے عالمی قائدین آرچ بشپ آف کینٹر بری ، رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عبداللہ بن عبد المحسن الترکی، امریکی مسلمانوں کے عظیم رہنما امام ماجد ، مسیحی رہنما باب رابرٹ ، سکھ رہنما بھائی صاحب ، ایرانی رہنما آیت اللہ تسخیری اور دیگر قائدین سے ملاقاتوں کے دوران ایک ہی موضوع زیر بحث رہا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی تمام تر کوششوں کے باوجود مسلسل پروان چڑھ رہی ہے اور اس کو مذہب کے ساتھ منسوب کیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ دنیا میں اسلام سے لے کر بدھ مت تک کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو انتہا پسندی اور تشدد کا درس دیتا ہو۔ دین اسلام کا پیغام اس کے نام سے ہی واضح ہو جاتا ہے اور جب قرآن کریم اللہ رب العزت کو رب العالمین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت للعالمین بتاتا ہے تو مزید یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی پہلو سے انتہاپسندانہ رویوں اور تشدد کے انداز کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ قرآن کریم تو کسی کے جھوٹے خدا کو بھی گالی نہ دینے کا حکم دیتا ہے اور اسی طرح کسی ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا انسان محفوظ رہے ۔ اسی طرح مسیحی اور دیگر مذاہب کی تعلیمات میں تشدد کی بجائے برداشت ، حوصلہ اور صبر کا درس دیا گیا ہے۔ ان تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو واضح طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جن لوگوں نے تشدد اور انتہا کا راستہ اختیار کیا اور اعتدال اور مکالمے کے راستے کو ترک کر دیا ان لوگوں نے مذاہب کی تعلیمات کی بجائے اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق مذاہب کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
حالیہ دنوں میںفرانس کے واقعہ کے بعد جو صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے اور جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی نفرت انگیز کارروائیاں شروع ہو گئی ہیں اس کے بعد مذہبی اور سیاسی قیادت کی ذمہ داریوں میں نہ صرف مزید اضافہ ہو گیا ہے بلکہ عملی طور پر بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت کا احساس نمایاں ہو رہا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ ساٹھ سالوں کے دوران مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور فلسطین سے لے کر کشمیر اور شام اور عراق کے معاملات نے مسلم نوجوانوں کے اندر مایوسی اور انتقام کو جنم دیا ہے لیکن اسلامی تعلیمات اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتیں کہ اگر آپ کے حقوق سلب ہو رہے ہیں اور آپ پر ظلم کیا جا رہا ہے تو آپ بھی ظلم کا راستہ اختیار کر لیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ عالمی دنیا اور مسلم حکمران فلسطین سے لے کر عراق اور شام تک کے مسائل کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے لیکن افسوس کہ نہ صرف مسلم حکمران بلکہ عالمی دنیا نے بھی ان مسائل پر جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اس نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ آج چند مسلم قائدین کے علاوہ باقی تمام نوجوان نسل کے سامنے اپنی اہمیت کھو چکے ہیںاور جو قائدین نوجوان نسل کے سامنے اہمیت رکھتے ہیں ان کے ساتھ مسلم حکمرانوں اور قائدین کے اختلافات کی وجہ سے ان کو اس انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کیلئے میدان میں نہیں لایا جا رہا۔ اگرچہ ان میں سے بعض مسلم قائدین اپنے طور پر اپنی بساط کے مطابق دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عفریت سے مقابلے کیلئے کوشاں ہے لیکن یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ آج سوشل میڈیا اور انفارمیشن کے ذرائع پر جس انداز سے انتہا پسنداور دہشت گردی تنظیموں کا قبضہ ہے اور وہ اپنے پیغام کو جس تیزی سے پھیلا رہے ہیں ان کے جواب میں کسی شخصیت یا جماعت کی تنہا کوشش صرف ایک قطرہ پانی کی بوند آگ کے جلائو پر پھینکنے کے مترادف ہے۔فرانس دھماکوں سے پہلے بھی اسلامک فوبیا اور مسلمانوں سے نفرت یورپ ، برطانیہ اور امریکہ میں بڑھ رہی تھی لیکن فرانس دھماکوں کے بعد اس میں شدت آئی ہے اور اس شدت کی کمی کیلئے مسیحی قائدین کو بھی اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا ہو گا۔بعض مسیحی قائدین کی طرف سے یہ کوششیں قابل تعریف ہیں کہ مذہب کی تعلیم سے ہٹ کر اگر کوئی گروہ ، جماعت یا فرد کوئی کام کرتا ہے تو اس کا مذہب اور اس مذہب کے ماننے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ انفرادی اعمال ہیں لیکن اس بات کو ثابت کرنے اور باور کروانے کیلئے مسلم اور غیر مسلم قائدین کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا ۔ اسلام نے مکالمہ سے منع نہیں کیا بلکہ قرآن کریم نے مکالمہ کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے جو واضح رہنمائی دی ہے وہ قرآن کی آیت ’’تمہارے لیے تمہارا دین ، ہمارے لیے ہمارا دین‘‘ ہے ۔ اس آیت کی روشنی میں مسلم قائدین بالخصوص سعودی عرب کے مفتی اعظم ، رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ، جامعہ الازہر کے شیخ کو عالمی سطح پر یہ قدم اٹھانا چاہیے اور یورپ سمیت پوری دنیا کے اندر اس پیغام کو پہنچانا چاہیے کہ جو کچھ داعش جیسی تنظیمیں اسلام کے نام پر کر رہی ہیں ان اقدامات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی طرح پوپ ، آرچ بشپ آف کینٹر بری اور دیگر مذاہب کے قائدین کو بھی یہ کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے مذاہب کے نوجوانوں کی رہنمائی کریں تا کہ تصادم کی بجائے امن کا راستہ اور امن کی منزل کی طرف بڑھا جا سکے۔ اب جبکہ ترکی اور روس کے درمیان بھی تلخ فضا بن چکی ہے اور بشارالاسد اور عراق کے معاملے پر عرب ممالک اور ایران اپنی اپنی پوزیشنوں پر کھڑے ہیں حالات کی بہتری کیلئے مذہبی قیادت کا کردار بہت اہم ہے اور اس اہم کردار کو ادا کرنے کیلئے مذہبی قائدین کو کسی مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی تعلیما ت کو روز روشن کی طرح دنیا کے سامنے رکھنا چاہئے ۔
تازہ ترین