• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں انہیں اکثر کہتا ’’ کچھ بھی ہو جیت آخر آپ کی Humbleness اور لوگوں کی دعاؤں کی ہی ہو گی‘‘ اور پھر دعاؤں اور عاجزی نے میدان مار لیا۔
ویسے تو ان سے لا تعداد ملاقاتیں اور بے شمار یادیں، مگر چند منظرتو ایسے کہ جو حافظے کا حصہ ہی ہو گئے، جیسے 27ستمبر 2013 کی سہ پہر، راولپنڈی کے فوجی قبرستان میں بہت بڑے جنازے کے بعد والدہ کو سپر دِ خاک کرنے اور ایک رقت آمیز دعا کے بعد کافی دیر گھٹنوں کے بل قبر کے ساتھ بیٹھ کر جب وہ اُٹھ کر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے قریب آئے تو میں نے انہیں دوسری مرتبہ جپھی ڈال کر ابھی دو چار تعزیتی جملے ہی ادا کئے ہوں گے کہ بہتے ہوئے آنسوؤں میں وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولے ’’یا ر ماں جی بھی چھوڑ گئیں، اب کون دعائیں دے گا اور میں کس کے پاؤں دبا کر مشکلوں کا سامنا کروں گا‘‘۔
پھر جون 2015کی دوپہر، جونہی اسمارٹ اور چاق وچوبند باوردی گارڈ نے کورکمانڈر راولپنڈی کے دفتر کا دروازہ کھولا اور میںاندر داخل ہوا تو ہمیشہ آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے ریسیو کرنے کی بجائے اُس دن وہ بے دلی سے اُٹھے اور وہیں کھڑے کھڑے ہاتھ ملا کر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئے، ان کے سامنے بیٹھتے ہوئے جب میری نظر ان کے بجھے بجھے چہرے پر پڑی تو مجھ سے رہا نہ گیا ’’سر باجوہ خیریت‘‘چند لمحے خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھ کر وہ بولے ’’یار آج صبح بارڈر پر میرا ایک جوان شہید ہوا ہے، 5بہنوں کا اکلوتا بھائی اور بوڑھے ماںباپ کا واحد سہارا تھا‘‘ اتنا کہہ کر وہ رُکے اور پھر چھت کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ بولے ’’اگلے ماہ اس کی شادی تھی، اب سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے گھر والوں کو یہ خبر کیسے سنائی جائے‘‘۔
اور پھر پچھلے ماہ نومبر کے تیسرے ہفتے کی ایک شام، وہ میرے ساتھ اپنے گھر کے لان میں بیٹھے جبکہ ان کے گھر والے ایک طرف واک کرتے ہوئے، اچانک گھر کے پچھلے حصے سے ان کا پی اے نمودار ہوا، اس نے ایک چٹ ان کے سامنے میز پر رکھی اور یہ چٹ پر ایک نظر مار کر بولے ’’بلا لو‘‘ اور پھردو منٹ بعد جب پی اے سفید شلوار قمیض پر کالی جیکٹ پہنے ایک ادھیڑ عمر شخص کو لے کر آیا تو یہ اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ میری یونٹ کے حوالدار ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ملنے آئے تھے، اب واپس جار ہے ہیں‘‘ یہ کہہ کر وہ جونہی حوالدار صاحب سے بغل گیر ہوئے تو وہ بولا ’’سرجی چیف بن کر بھول تو نہیں جائیں گے‘‘ یہ سن کر اُنہوں نے دوران جپھی ہی کہا ’’اللہ مجھے وہ عہد ہ ہی نہ دے کہ جس کے ملنے کے بعد میں تمہیں بھلادوں‘‘۔
دوستو! ماں کی قبر پر بچوں کی طرح آنسو بہانے، اپنے جوان کی موت پر انتہائی دُکھی ہوجانے اور اپنی یونٹ کے ایک حوالدار کے سامنے آرمی چیف کے عہدے کو خاطر میں نہ لانے والے کوئی اور نہیںبلکہ دو دن پہلے پاکستان کے سولہویں آرمی چیف بن چکے جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں، وہ قمر جاوید باجوہ جنہیں میں سر باجوہ کہوں اور جو آرمی چیف بننے سے 5دن پہلے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم سے ملحقہ چھوٹے کمرے میں اپنے والد، والدہ کی جوانی اور اپنی بچپن کی تصویریں دکھا کر،کوئٹہ میں اپنے والد کرنل اقبال باجوہ کی اچانک وفات کے بعد اپنے بچپن اور لڑکپن کے ’’اوکھے ویلے‘‘ کی روداد اور ملٹری اکیڈمی کاکول کی کیڈٹ شپ سے جرنیلی تک کا قصہ سنا کر، پیچھے سے وار کرتے اپنوں، سسر جنرل اعجاز امجد کی شفقت، ہر مشکل میں ساتھ دیتی بیگم، دونوں بیٹو ں کی فرمانبرداری، اپنے زیرِتعمیر گھرکی کہانی اور 10ماہ بعد ریٹائر ہو کر اپنے’’فیوچر پلانز‘‘ بتا کر جب خاموش ہوئے تو میں بول پڑا ’’اگر آپ چیف بن گئے تو پہلی ترجیح کیا ہوگی‘‘ اُنہوں نے پہلے مسکرا کر میری طرف دیکھا، پھر صوفے سے ٹیک لگا کر کہا ’’میں ہسٹری کا اسٹوڈنٹ ہوں، مجھے بخوبی علم کہ جہاں جہاں بھی فوج نے اپنے کام کی بجائے ’’کچھ اور‘‘ کیا، وہاں مسائل گھٹے نہیں بڑھے ہی، لہٰذا میری اولین ترجیح ہوگی کہ فوج وہی کرے جواس کا کام‘‘ یہ کہہ کر وہ رُکے اورپھر پچھلے آدھے گھنٹے سے سامنے پڑے قہوے کا کپ اُٹھا کر ٹھنڈے قہوے کا گھونٹ بھر کرکہنے لگے ’’اگرچہ ہم سب کو اختیارات اپنے پاس رکھ کر چوہدری بننے کا شوق مگر میری خواہش ہوگی کہ اس بار یہ نہ ہو‘‘۔
دوستو! ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو کہ 11نومبر 1960کو کراچی میں پیدا ہونے، 23اکتوبر 1980کو آرمی میں کمیشن لینے،کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج ٹورنٹو سے گریجویشن اور نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی کیلی فورنیا سے فارغ التحصیل گھکھڑ منڈی کے جٹ سر باجوہ کو پی ٹی وی میں پروڈیوسر سے جنرل منیجر بننے والے اپنے ماموں رفیق وڑائچ کے گھر فنکار برادری کے اکٹھ ابھی تک یاد، انہیں اپنے ماموں کے کلاس فیلوز اداکار محمد علی مرحوم اور مصطفیٰ قریشی کی باتیں ابھی تک ازبر، اور تو اور انہیں ابھی تک مری کے راستے میں اپنی گاڑی کے ساتھ ایک اسٹائل سے کھڑا وحید مراد بھی نہیں بھولا، ہو سکتا ہے یہ سب سن کر آپ حیران ہوں مگر میرے لئے یہ سب کچھ اس لئے معمول کی کارروائی کیونکہ میں سرباجوہ کی ’باکمال یادداشت‘ کا عادی ہو چکا، صاحبو ! گھر ہو یا دفتر کبھی الائچی والا قہوہ پلا کر اورکبھی چائے سموسہ کھلا کرپھر زبردستی براؤن بریڈ کا سینڈوچ کھلانے والے وہ سر باجوہ جن کی سب سے بڑی عیاشی کتابیں پڑھنا، کرکٹ کھیلنا اور فیملی کے ساتھ کرکٹ دیکھنا، جو آرمی کرکٹ ٹیم کی طرف سے پیٹرن ٹرافی کھیل چکے، جو برے وقتوں کے اچھے دوست، جو ہر وقت ہر کسی کی مدد کیلئے تیار، جو و ضعدار اور کھلے ڈُلے، جن میں نہ احساسِ برتری اور نہ احساسِ کمتری، جو جرنیلی میں بھی ویسے ہی جیسے کپتانی میںاور بقول ہماری بھابھی ’’اس کا تو جرنیلی بھی کچھ نہ بگاڑ سکی‘‘ اور وہ سر باجوہ جو بارڈر پر برستی گولیوں میں جوانوں کے ساتھ نہ صرف زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا لیں بلکہ مسلسل ہوتی فائرنگ میں ساری رات جوانوں کے ساتھ گزار دیں، جو پر وفیشنل سولجر، جو فوج کے ہر دلعزیز کمانڈر، جو سچے پاکستانی، جو پکے مسلمان، جو جمہوریت کے حامی، جو مارشل لا کو خرابیوں کی جڑ سمجھنے والے، جن کے آرمی چیف بننے سے اب واقعی ’’سول ملٹری‘‘ تعلقات بہتر ہونے کی اُمید، جن کی کامیابی کیلئے میں دل سے دعا گو اور جنہیں میں اکثر کہتا کہ ’’کچھ بھی ہو جیت آخرآپ کی Humbleness اور لوگوں کی دعاؤں کی ہی ہوگی‘‘ اور پھر دعاؤں اور عاجزی نے میدان مار لیا۔

.
تازہ ترین