• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ہمارے کلچر کا بڑا نرالا دستور ہے کہ ہم سیاسی و انتظامی ہر شعبے میں رخصت ہونے والے سے آنکھیں پھیر لیتے اور آنے والے کے راستے میں پلکیں بچھا دیتے ہیں۔ ایک طرف جنرل راحیل شریف کو فوج اور حکومت کی طرف سے پروقار تقریبات میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا جارہا تھا ا ور عمومی طور پر میڈیا میں بھی ان کی قوم و وطن کے لئے ناقابل فراموش خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا وہاں چند میڈیا شخصیات نے دوسرے رخ کو بھی سامنے لانا مناسب سمجھا۔ آگے چل کر ان چنگاریوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کے وقت وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا تھا کہ وہ اول و آخر سپاہی ہیں پھر وقت نے ثابت کیا کہ ایسا ہی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے کئی محاذوں پر چومکھی جنگ لڑی اور بڑی حد تک اس میں سرخرو بھی ہوئے۔ فاٹا کے علاقے میں دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی کمیں گاہیںہی نہیں ایک طرح سے ان کی چھائونیاں بنی ہوئی تھیں۔ جنرل راحیل شریف نے پاک فوج اور عوام کے بھرپور تعاون کے ساتھ نہ صرف دہشت گردوںکی کمر توڑ دی بلکہ ان کی تربیت گاہوں اور اسلحہ ساز فیکٹریو ں کو بھی ملیامیٹ کردیا۔ جنرل راحیل شریف کی بحیثیت آرمی چیف تقرری سے پہلے ذرا کراچی میں امن و امان کی صورتحال کا نقشہ ذہن میں تازہ کیجئے۔ وہ کراچی جہاں سب سے بے وقعت چیز انسانی جان تھی۔ وہ کراچی جہاں انسانی زندگی کی حرمت کا ہر تصور دم توڑ چکا تھا، وہ کراچی جہاں رات دن الطاف حسین شعلے اُگلتا اور اپنے پیروکاروں کو ہتھیار اٹھانے پر اُبھارتارہتا، وہاں امن قائم ہو گیااور روشنیوں کےشہر کی روشنیاں ہی نہیں وہاں کی رونقیں بھی لوٹ آئیں اور شعلوں اور نفرتوں کی آگ کو بھسم کردیا گیا۔ اسی طرح بلوچستان میںبھی برسوں بلکہ دہائیوںپرانی دہشت گردی اور شدت پسندی کو بڑی حد تک کنٹرول کرلیا گیا ہے۔ قوم کی طرف سے انہیں جو ٹاسک دیاگیا تھا اسے انہوں نے بڑی حد تک پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اسی لئے ساری قوم جنرل راحیل شریف اور افواج پاکستان کی تہہ دل سے شکرگزار ہے۔ میڈیا کے بعض حضرات نے جاتے جاتے جنرل راحیل شریف کو جو تنقیدی پرچہ تھمایا ہے اس کاپہلا نکتہ یہ ہے کہ سابق آرمی چیف کے دور میں فیصلہ سازی کے پیچھے شخصی اظہار اور خود پارسائی کا تاثر سامنے آیا..... اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ آرمی چیف کی شخصیت عوام کی نظروں میں بہت نمایاں ہوگئی لیکن ان کا ادارہ پس منظر میں چلا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معترض کو آرمی ہی نہیں کسی عام سیاسی، تجارتی اور انتظامی شعبے کی ہیت ترکیبی کا بھی کچھ اندازہ نہیں۔ کسی بھی ادارے یا شعبے کاسربراہ ہی اس کا آئینہ اور ترجمان سمجھاجاتاہے۔ فوج میں تو پالیسی اور پلاننگ کاہر فیصلہ فردِ واحد نہیں کور کمانڈرز کانفرنس میں ہوتا ہے۔ تاہم فوج میں یونٹی آف کمانڈ ہے۔ فوج کی منصوبہ بندی کی وضاحت، افسروں اور جوانوں کی حوصلہ افزائی اور دہشت گردی سے خوفزدہ عوام کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی آرمی چیف نہیں کرے گاتو اور کون کرے گا۔ گزشتہ تین سالوں میں کور کمانڈرز میٹنگز باقاعدگی سے ہوتی رہی ہیں جبکہ وزیراعظم نے شاذو نادر ہی کیبنٹ کی میٹنگ بلائی اور پارلیمنٹ میں جانا تو وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ سیاسی حکومتیں تو اپنی کابینہ، پارلیمنٹ اور عوام کو جوابدہ ہوتی ہیں مگر یہاں فیصلے فردِواحد کرتاہے اور کسی کو کانوںکان خبر تک نہیں ہوتی۔ تنقیدی پرچے کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کی میڈیا پر نمایاں رہنے کی اسٹرٹیجی کی وجہ سے کچھ ایسے اہداف بھی اجاگر کئے گئے جیسا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے یا دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی گئی ہے یا فاٹا ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے جڑ سے اکھاڑ دینے کی بات نہ کی جاتی اور دہشت گردوں پر کاری ضرب لگانے کی ولولہ انگیز خوشخبری نہ سنائی جاتی اور مایوسی پھیلاتے ہوئے کہاجاتا کہ ہم نے کچھ کارروائی کی ہے دیکھئے ان کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ تنقیدی پرچے کا تیسرا اعتراض خاصا دلچسپ ہے۔ اس اعتراض میں کہا گیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے میڈیا کو استعمال کرنے کا نتیجہ ایسی سیاسی توقعات پیدا کرنا تھا جس کی وجہ سے انواع و اقسام کے اینکرز، صحافی اور دانشور شمشیر بکف ہو کر حکومت کے گرم تعاقب میں رہے۔ اگر کوئی صحافی یا سیاست دان کسی جنرل کے ساتھ کوئی توقعات یا مفروضات قائم کرلیتا ہے تو اس میں آرمی چیف کا کیا قصور؟ یہ آرمی چیف کا کام نہیں کہ وہ مختلف مفروضوں کی تردید کرتا پھرے۔ جس تردید کی ضرورت تھی وہ جنرل صاحب نے کردی تھی کہ وہ ہرگز ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتے اور نہایت وقار کے ساتھ اپنی مدت ِ ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ جنرل راحیل شریف بالعموم میڈیا سے براہ راست مخاطب ہونے سے گریزا ں رہے۔ ہمارے معترض صحافی اور اینکرز نئے آرمی چیف کو میڈیا سے بچنے کا مشورہ دے رہے تھے جبکہ نئے آرمی چیف نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی صحافیوں کو بتایا کہ وہ میڈیاکو ساتھ لے کر چلیں گے۔ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے لئے سابق آرمی چیف کے معترضین کا مشورہ ہے کہ وہ ضرب عضب جیسے آپریشن کو مکمل طور پر فوجی انداز میں نمٹائیں اور اسے عوامی بنانے سے گریز کیا جائے۔ جناب والا! جہاں اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، اسپتالوں اورعوامی جگہوں پر دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی ہوں وہاں آپریشن کو عوامی بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اپنے من پسند کارناموں کی بناپر پاکستان کی اندر سے ڈری سہمی ہوئی سول حکومتیں اپنے تحفظ کے لئے نہ جانے کیاکیا انتظامات کرتی ہیں اور یہ بنیادی حقیقت بھول جاتی ہیں کہ ان کا اصل تحفظ ان کی اخلاقی و مالی ساکھ اور گڈگورننس میں پنہاں ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جاتے جاتے ایک بار پھر پاکستان کے تین اہم ترین مسائل کی نشاندہی کردی ہے۔ پہلا مسئلہ کرپشن، دوسرا شدت پسندی، تیسرا مسئلہ کشمیر ہے۔ جناب نوازشریف کا طرزِ حکمرانی یہ ہے کہ وہ افراد کو قابو میں رکھنےکے لئے تگ و دو کرتے ہیں اور اداروں سےبگاڑ لیتے ہیں۔ وہ بحیثیت ادارہ پارلیمنٹ، سول سروس، عدلیہ حتیٰ کہ آرمی کی پروفیشنل ورکنگ کو ہمیشہ نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ جنرل قمر باجوہ بھی اسی طرح اول و آخر سپاہی ہیں جیسے جنرل راحیل شریف سپاہی تھے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ میا ں نواز شریف نئے آرمی چیف کے ساتھ کیسی ورکنگ ریلیشن قائم کرتے ہیں کیونکہ ان کا پرانا ریکارڈ تو حوصلہ افزا نہیں۔ تاہم ایک بات سمجھنے کی ہے کہ کمان کی تبدیلی اقتدار کی تبدیلی نہیں اس لئے زیادہ قیاس آرائیوں سے اجتناب کیاجائے۔

.
تازہ ترین