• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی غریب کی خوشحالی اور اس کا حسن اس کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ سندھ کے صحرائے تھر کی دھرتی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ماجرا ہے۔ تھر کے حسن کے لئے فی الحال عذاب اس کی خوشحالی بتلائے جانے والا وہ کوئلہ ہے جسے غیر تھری ترقی یافتہ متوالے، دانشور اور این جی اوز والے والیاں ’’ کالا ہیرا‘‘ یا ’’بلیک ڈائمنڈ‘‘ بتلاتے ہیں لیکن تھری مساکین عوام اپنے لئے کالا پانی‘‘ سمجھ رہے ہیں۔ اسی لئے تو سینکڑوں تھری مرد، عورتیں اور بچے، گزشتہ دو ہفتوں سے آخر نومبر کی سرد راتوں میں بھی کھلے آسمان کے نیچے اسلام کوٹ کے پریس کلب کے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تھر کے کوئلے کی کانوں والے میدان کے تھری احتجاج کئے بیٹھے ہیں۔ تھری کہ جن کا کوئی نہیں ہوتا سوائے کھلے آسمان اور ریت کے ٹیلوں کے۔ ان کے اونٹوں، بکریوں، گائیوں اور موروں ہرنوں کے، ان بادلوں کے (جیسے مائی ڈھائی گاتی ہیں ’’بادلریو رے‘‘) جو اس پیاسی دھرتی پر کبھی کبھی دور دیس گئے ہوئے دوست یا بیاہی بیٹی کی طرح واپس آتے ہیں۔ یہ سب کچھ تھریوں کے لوک گیتوں میں بھی ہے۔ معاف کیجئے گا میں تھوڑا سا رومانی ہو گیا۔ خیر۔
تو کھلے آ سمان تلے اسلام کوٹ اور کراچی پریس کلبوں کے باہر دھرنے دیئے ہوئے ان تھریوں کا کہنا ہے تھر کی کول فیلڈ کے بلاک نمبر دو میں کثیرالاقوامی کمپنی جو مجوزہ ڈیم تعمیر کر رہی ہے وہ گوراڑنو گائوں سمیت پندرہ ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کے لئے ایک بہت بڑی تباہی کا شاخسانہ بنے گا۔ پندرہ ہزار نفوس اور چار سے پانچ تک بڑے چھوٹے گوٹھ اس مجوزہ ڈیم سے متاثر ہوں گے کہ جب زمین کی تین تہوں میں کوئلہ نکالنے کے لئے نکالے جانے والا لاکھوں کیوسک ’’کھارا پانی‘‘ قریبی ریت کی بھٹوں یا ٹیلوں کے مابین بنائی گئی ایک دیوار کے سہارے پیالے نما اس ڈیم میں آن کر جمع ہوگا تو اس سے بقول ان تھری عوام اور ڈیم مخالف مقامی لوگوں کے ایک بڑی بربادی لائے گا جو کہ قدیم مقدس کتابوں میں آنیوالی تباہیوں جیسی ہوگی۔ لیکن کمپنی اور اس کے کاسہ لیس دانشوروں اور تکنیکی ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ سرزمین بلاک دو کے قریب ہے اور پیالے نما بننے والا مجوزہ ڈیم قدرتی ہے جس میں جمع ہونیوالے خارج شدہ پانی سے کسی بھی قسم کی تباہی کا کوئی امکان نہیں۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ تھریوں کو تو یہ ’’نہ کھپے نہ کھپے‘‘ کی خواہ مخواہ عادت پڑی ہوئی ہے۔نیز یہ کہ مجوزہ حاصل کی گئی زمین سے نکالے گئے لوگوں کو متبادل زمین اور معاوضہ دیا جائے گا۔
مجھے تھریوں کا یہ احتجاج آج کل امریکہ کی ریاست جنوبی ڈیکوٹا میں امریکہ کے قدیم اور اصلی باشندوں نیٹو امریکیوں کے اس احتجاج سے ملتا جلتا لگتا ہے جو انہوں نے اپنی قدیم اور مقدس زمین ’’اسٹینڈنگ راک‘‘ پر کئی دنوں سے جاری رکھا ہواہے جہاں سے تیل کی ایک پائپ لائن نکالی جارہی ہے۔ شاید ایسے احتجاج کا بھی ذکر آپ زیادہ تر امریکی مین اسٹریم میڈیا میں شاذ و نادر ہی سنتے اور دیکھتے ہوں۔ جیسے اسلام آبادی دھرنوں کا شوقین ’’پیپلی لائیو‘‘ ٹائپ پاکستانی میڈیا تھریوں کے اس احتجاج اور آواز کو سننے اوردیکھنے سے اب تک قاصر ہے۔
مجھے اسلام آباد سے اپنے گھر تھر آئے ہوئے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کپیل دیو نے کہا ’’میں تھر میں کوئلے کی کانوں والے اس میدان تھارڑیو ہالیپوٹا کے نزدیک ان گوٹھوں میں گيا تھا اور یہ سب کچھ دیکھ کر رونا آگيا ہے۔‘‘ ایک اندازہ ہے کہ پندرہ سو ایکڑ سے لے کر ستائیس سو ایکڑ زمین متاثر ہوگی۔
تھر کے ہی میرے ایک شاعر دوست نے کہا ہے ’’مارئی کی قبر تلے کوئلہ برآمد ہوا ہے‘‘ مجھے یاد آیا انیس سو بیانوے میں جب ابھی اسی جگہ کوئلہ نکالے جانے کی باتیں ہورہی تھیں تو میرے اک پڑھے لکھے تھری دوست نےکہا تھا ’’ہم ایسی ترقی سے ڈرتے ہیں جو ہماری زمین کو سرخ بتی والے علاقے میں تبدیل کر دے۔‘‘ کپیل دیو کہہ رہا تھا ’’ یہ تھری منگلا اور تربیلا کے متاثرین نہیں جنہیں مانچسٹر اور برمنگھم میں بسایا گیا تھا۔ یہ بچارے تھر میں بھی شاید ہی پھر آباد ہو سکیں۔‘‘ کوئلے کی کانوں میں مقامی تھری دیہاڑی کے مزدوروں اور بابو لوگوں کے علاوہ مقامی تھری انجینئر ٹیکنشن آٹے میں نمک کے تناسب سے بھی نہیں۔ بلڈوزر چل رہے ہیں۔ لینڈ کروزر آجا رہی ہیں کوئی تین سو کے قریب غیر ملکی انجینئر اور دوسرے ماہرین بھی کام کررہے ہیں۔ لیکن چاہے کتنے بھی تھر میں روڈ بنیں تھریوں کے لئے وہ کہیں بھی نہیں جاتے۔ ہم نے یہاں ڈکار (قحط) کے بھی لوک گیت عورتوں کو ڈھولک کی تھاپ پر گاتے سنا تھا۔ دل کو نمک کی ڈلی کرتے ہوئے یہ گیت۔
لیکن تھر سے ایک سڑک بدین ضلع کو بھی جوڑتی ہے جہاں کے کڑیو گنہور کے ایک گائوں سے پولیس اور غیرسول اداروں نے اسی سالہ محمد راہموں کو گرفتار کر کے غائب کیا ہوا ہے۔ محمد راہموں سندھ کے ایک پرانے قوم پرست سیاسی کارکن ہیں جنہیں سندھی قوم پرست استاد محمد راہموں کہتے ہیں۔ محمد راہموں کئی عرصے سے غیر سرگرم اور اپنے گھر بستر علالت پر پڑے ہوئے تھے کہ پولیس والے اسے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ نہ محمد راہموں کو تین ہفتے غائب ہوئے کسی عدالت میں پیش کیا گيا ہے اور نہ ہی اس کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔
اسی طرح ایک اور غائب شدہ دانشور اور لکھاری واحد بلوچ جسے لاپتہ ہوئے کئی ماہ بیت چکے ہیں کی والدہ اپنے بیٹے کو یاد کر کے شدید علیل پڑ چکی ہیں، جب بھی ہوش میں آتی ہیں تو اپنے بیٹے کا پوچھتی ہیں۔ ادیب، دانشور، لکھاری، مدیر اور لائبریرین واحد بلوچ جس کا کوئی اور جرم تو نہیں محض ملیر میں ظہور شاہ ہاشمی لائبریری قائم کرنا نظر آتا ہے۔ کلاکوٹ لیاری کے اس واحد بلوچ کی بیٹی کہتی ہیں ’’اگر میرے والد کا کوئی قصور ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔‘‘ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی قوتیں کہاں سنتی ہیں۔ ہنسی آتی ہے کہ ایسے میں جس ملک میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں شہری مبینہ طور پرگرفتار کر کے غائب کردیئے گئے ہوں وہ ملک اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہی کا انتخاب لڑ رہا ہے۔
نئے فوجی سربراہ کو اس مشرفی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئےجس میں آئین اور قانون سے ماورا لوگوں کو غائب کر دیا جاتا ہے۔

.
تازہ ترین