• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے اور اس کے ساتھ ہی مولانا امیر حمزہ کی ایک تحریر فیس بک پر نظر آئی ہے جو کچھ یوں ہے ’’ہمارے نئے آرمی چیف کا نام قمر جاوید ہے، قمر عربی میں چاند کو کہتے ہیں، جس طرح چاند کے آنے سے پہلے اس کے طلوع کا انتظار ہوتا ہے، جنرل صاحب کی آمد سے پہلے بھی یونہی انتظار تھا اور ہر کان اسی خبر کی طرف لگا ہوا تھا۔ پھر جیسے چاند کے آنے پر عید ہو جاتی ہے، ان کے آنے پر ہمیں عید کی خوشی ملی۔ جاوید فارسی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے ہمیشہ رہنے والا۔ جنرل صاحب ایک عام چاند کی طرح نہیں جو ہر چند دن بعد پہلے ہوتا ہے، پھر غائب ہو جاتا ہے بلکہ آپ ہمیشہ رہنے والے چاند ہیں۔۔۔باقی بعد میں‘‘۔
مولانا امیر حمزہ کو مبارک ہو کہ وہ بہت سے اینکرز اور کالم نگاروں پر سبقت لے گئے اور انہوں نے جنرل صاحب کی مدح خوانی سب سے پہلے کرنے کی سعادت حاصل کی تاہم یہ سطور میں ایک خاص حوالے سے لکھ رہا ہوں، اس سے پہلے میں اپنی اس بے پایاں خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں بہت عرصے کے بعد ہمارے ایک آرمی چیف نے اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے فوراً بعد فوج کی کمان اگلے آرمی چیف کے سپرد کی۔ یہ مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوا۔ یہ ضروری ہے کہ اس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف کے تدبر اور جنرل راحیل شریف کی ان خدمات کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا جائے جو انہوں نے ضرب عضب اور دوسرے دفاعی امور کے حوالے سے پوری پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ انجام دیں۔ اس دوران دھرنے ورنے ہوئے اور دھرنے دینے والوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بار بار ’’امپائر‘‘ کا حوالہ دیا لیکن امپائر نے ان کی تمام تر کوشش اور شدید خواہش کے باوجود ’’انگلی‘‘ نہیں اٹھائی اور یوں ہماری قومی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ ہوا۔
جنرل قمر جاوید کی بطور آرمی چیف تقرری سے پہلے ان کے خلاف ایک بہت مکروہ مہم بھی چلائی گئی، جو بے حد خطرناک تھی، مگر وزیراعظم نے اس مہم کا کوئی اثر قبول نہیں کیا، تاہم ضروری ہے کہ ان عناصر کا سراغ ضرور لگایا جائے جو اس مہم کے پیچھے تھے کہ یہ گھٹیا حرکت آرمی میں پھوٹ ڈلوانے اور پاکستانی عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی غرض سے تھی، یہ جرم ناقابل معافی ہے اور یوں مجرموں کا سراغ لگا کر انہیں قانون کے شکنجے میں لانا بہت ضروری ہے۔ جنرل صاحب نے میڈیا کے حوالے سے اپنے خیر سگالی جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ان سے گاہے بگاہے ملتے رہیں گے اور ان سے رہنمائی حاصل کریں گے ۔میرا یہ کالم ان کے اسی بیان کے حوالے سے ہے اور میں نجم سیٹھی کی اس بات سے سوفیصد متفق ہوں کہ ہمارے نئے آرمی چیف کو اس طرح کی ملاقاتوں سے احتراز کرنا چاہئے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی چند میڈیا پرسنز سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے ان کی دو ملاقاتوں میں ، میں بھی شریک تھا۔ ایک ملاقات ساڑھے پانچ گھنٹے پر اور دوسری ڈھائی گھنٹے پر مشتمل تھی۔ لیکن وہاں ہونے والی تمام گفتگو آف دی ریکارڈ ہوتی تھی۔ جنرل صاحب صحافیوں کے ہر طرح کے سوال اور ان کے وسوسوں کا دانشورانہ جواب دیتے تھے ۔ ان محفلوں کی نوعیت اگرچہ مختلف تھی مگر بہرحال یہ پبلک ریلیشنگ کا ایک ذریعہ تھی جبکہ آرمی چیف پاکستانی عوام کے دلوں پر راج صرف اس صورت میں کر سکتا ہے جب وہ اپنی تمام تر توجہ پاکستان کے دفاع پر مرکوز رکھے، آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرے اور ملک کو اقتصادی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرے۔ بدقسمتی سے ، بہت احترام کے ساتھ، جنرل راحیل شریف کے دور میں صحافیوں کی ایک ایسی پلٹن تیار ہوئی جنہوں نے جنرل صاحب کو پٹڑی سے اتارنے کی پوری کوشش کی اور خدا کا لاکھ شکر ہے کہ ان کی اس طرح کی تمام تر کاوشیں بیکار گئیں۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے خاندان کے روشن کرداروں میں ایک اور روشن کردار کا اضافہ کیا اور یہ میڈیا پرسنز عوام میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے ۔
اب یہی لوگ ایک نئے ’’عزم‘‘ اور پوری ’’تیاری‘‘ کے ساتھ اپنا سابقہ کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں بلکہ بعض چینلز سے تو اس ’’کارخیر‘‘ کی ابتداء بھی ہو چکی ہے ۔ کالم کے آغاز میں، میں نے نمونہ از خروارے کے مصداق ایک تحریر درج کی ہے مگر اس تحریر کا محور ایک سادہ لوح انسان ہے، اس نے دل کی بات بغیر لگی لپٹے کر دی ہے ۔ ان کے بھائی بند اتنے سادہ لوح نہیں ہیں، وہ عوامی مسائل کا بھرپور ڈھنڈورا پیٹیں گے اور پھر ان کے ’’عسکری حل‘‘ کی تجویز بالواسطہ طور پر پیش کریں گے ۔ انتخابات میں نامراد ہونے والی سیاسی جماعتوں کے رہنما جن کے سرخیل جناب شیخ رشید ہیں، ان کے آگے آگے ہوں گے ۔ سو جنرل صاحب سے میری صرف اتنی گزارش ہے کہ وہ میڈیا پرسنز کے ہجویہ اور مدحیہ قصیدوں سے صرف نظر کریں، سیاسی رہنمائوں کی اخباری سرخیوں پر توجہ نہ دیں اور اسی طرح اپنے کسی بیان کو بھی شہ سرخی نہ بننے دیں....آپ کو اس کی جزاء پاکستانی عوام کی دعائوں اور اللہ کے فضل وکرم سے اس سے کہیں زیادہ ملے گی، جو بصورت دیگر کبھی نہیں مل سکتی!

.
تازہ ترین