• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی جمہوری تاریخ میں نیا باب رقم ہوچکا ہے۔دیگر اداروں کی طرح فوج میں بھی طے شدہ وقت پر سربراہ کی تبدیلی ہوئی ہے۔یہ جمہوریت کے ہی ثمرات ہیں کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں سمٹ رہا ہے۔ماضی میں روایت رہی ہے کہ کبھی مدت ملازمت میں توسیع تو کبھی غیر آئینی اقدام کی آڑ میں دس،دس سال تک ایک شخص براجمان رہا ۔مگر اب یہ باتیں تاریخ کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے بعد جنرل(ر) راحیل شریف اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ کا بطور آرمی چیف تعینات ہونا جمہوری تسلسل کی کامیابی ہے۔آج ملک میں واقعی ادارے مضبوط ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔جس کا بہرحال کریڈٹ سول اور عسکری قیادت دونوں کو دینا چاہئے۔اگر ملک میں آئندہ دس سال جمہوریت قائم رہی تو پاکستان جلد ہی اس پٹری پر چڑھ جائے گا جس پر آج بھارت،سنگاپور اور ملائیشیا جیسے ممالک موجودہیں۔گزشتہ تین سال کے دوران بعض معاملات کے حوالے سے ملک کی منتخب جمہوری حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔اداروں کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی وجہ سے ہمیشہ چیف ایگزیکٹو اور جمہوری حکومت کا دفاع کیا۔جو کچھ گزشتہ تین سالوں میں ہوا،وہ اب ماضی ہو چکا ہے۔قارئین جانتے ہیں کہ اس خاکسار نے گزشتہ سربراہ کے دور میں مختلف پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔جس کا مقصد جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنا تھا۔آج جنرل(ر) راحیل شریف اپنی مدت مکمل کرکے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ریٹائر شخص پر تنقید کرنا مناسب بات نہیں ہے۔اس لئے ہم سب کو آگے چلنا چاہئے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے زیادہ شناسائی تو نہیں ہے مگر کمان سنبھالنے کے بعد ان کی غیر رسمی گفتگو نے حیران کردیا ہے۔آج تمام قومی اخبارات کی شہ سرخی ہے کہ "کنٹرول لائن پر حالات جلد بہتر ہونگے،جنرل باجوہ"نئے آرمی چیف کی غیر رسمی گفتگو ان کے وژن کی عکاسی کرتی ہے۔مجھ جیسے پاکستان کے کروڑوں جمہوریت پسند لوگوں کو خوشی ہے کہ آج ہمیں ایسے سپہ سالار میسر آئے ہیں۔جو کشیدگی کی سنگینی اور اس کے نقصانات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔میرا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ کنٹرول لائن پر لمبے عرصے تک کشیدگی دونوں ممالک کے لئے نقصان دہ ہے۔آج کی مہذب دنیا میں جنگ دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔امید ہے ہمارے نئے آرمی چیف کی سوچ سرحد پار بھی رپورٹ ہوئی ہوگی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حالات بہتر کرنے کے حوالے سے معاملات کا آغاز کردیا ہے۔سرحد پار ہمسایہ ملک کی بھی ذمہ داری ہے کہ کنٹرول لائن پر حالات بہتر بنانے کے لیے پاکستان کی کوششوں کا بھرپور ساتھ دے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ کالم ـ"شکریہ جنرل راحیل شریف"میں سول عسکری تعلقات میں تین سال پائی جانے والی سرد مہری پر ایک لائن لکھی تھی۔جس پر ملک بھرسے قارئین کی اکثریت نے سوال کیاکہ اس کا کیا مطلب ہے۔تین روز قبل لکھا تھا کہ "لیکن اپنے بھائی اور قریبی عزیز کی بھارتی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نے عسکری قیادت کو حکومتی موقف سے دور رکھا"آج شاید نئے آرمی چیف کے بیان کے بعد معاملات واضح ہوگئے ہونگے۔اچھی بات ہے کہ فوج میں بھی وقت پر ریٹائر ہونے کی روایت کا سلسلہ آہستہ مگر جاری ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کے وژن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمسائیوں سے بہتر تعلقات رکھ کر ترقی کے راستے کو ترجیح دیں گے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمسایہ ملک بھارت ہمیشہ کشیدگی کو ہوا دیتا رہا ہے،نہتے لوگوں پر گولیاں چلانے سے بھی انکار ممکن نہیں،بلوچستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی کی دخل اندازی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمسائے کبھی تبدیل بھی نہیں ہوسکتے۔معروضی حالات کو جانچتے ہوئے انہی ہمسائیوں کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔اس لئے خطے میں پائیدار امن اور ترقی کے سفر پر گامزن رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر درمیان کا راستہ تلاش کریں۔قدرت کا اصول ہے کہ تالی ہمیشہ دوہاتھوں سے بجتی ہے۔برداشت اور حکمت سے سب کچھ بہتر بنایا جاسکتا ہے اور شاید آنے والے چند دنوں میں عسکری قیادت کی جانب سے اسی قسم کی پالیسی نظر آئے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی غیر رسمی گفتگو سے ان کے اہداف کا تعین تو ہوچکا ہے۔مگر اب سول حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاملات میں ضد اور انا کی بجائے کچھ لو اور کچھ دو سے کام لیں۔وزیراعظم نوازشریف کے لئے یہ کوئی چھوٹا اعزاز نہیں کہ وہ جس ملک کے شہری ہیں۔
آج تین مرتبہ اس کے وزیراعظم اور دو دفعہ جس صوبے کا ڈومیسائل رکھتے ہیں ،اس کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جانے والی پاک فوج کے پانچویں سپہ سالار کا تقرر انہوں نے کیا ہے۔نوازشریف صاحب کی ذمہ داری ہے کہ فوج کے حوالے سے اپنے معاملات میں پیچیدگیاں ختم کریں۔اچھی بات ہے کہ وہ سویلین بالادستی اور جمہوریت کے داعی ہیں۔مدت ملازمت میں توسیع اور اداروں کی مضبوطی کے حوالے سےوزیراعظم کا موقف قابل تحسین ہے۔مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جس ادارے نےماضی میں 30سال تک اس ملک پر حکمرانی کی ہے۔ماضی میں ایسے وزیراعظم بھی میسر آئے جو راولپنڈی جاکر احکامات بجا لاتے تھے۔اس لئے تمام اختیارات کا رخ اسلام آباد کی طرف فوری طور پر موڑنا مشکل مرحلہ ہوگا۔ہم سب کا یہ اصولی موقف ہے کہ ملک میں طاقت کا محور پارلیمان کو ہونا چاہئےمگر اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے۔جیسے جیسے جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونگی اور وقت گزرتا جائے گا ۔وزیراعظم نوازشریف سمیت تمام جمہوریت پسند لوگوں کی خواہش پوری ہوتی چلی جائے گی۔مگر اس کے لئے جمہوری حکومت کو بھی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔ملک کی آبادی کی اکثریت آج بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔صرف پنجاب کی بہتر کارکردگی کو سامنے رکھ کر پورے ملک سے منہ نہیں موڑا جاسکتا ۔آپ پنجاب نہیں پورے ملک کے وزیراعظم ہیں۔عوام اور میڈیا کی اکثریت کو خوشی ہے کہ حالیہ دور ماضی کے ادوار سے بہتر رہا مگر مثالی دور کہنا قبل از وقت ہوگا۔جناب وزیراعظم! آپ پر ہمیشہ تنقید بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ عوام کو آپ سے امیدیں بھی بہت زیادہ ہیں اور جہاں امید ہوتی ہے وہاں گلہ بھی بنتا ہے۔اگر ہم سب چاہتے ہیں کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور جمہوریت کا تسلسل متاثر نہ ہو تو جمہوری حکومت کو عوام کی خدمت کرنا ہوگی۔

.
تازہ ترین