• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان پر ہزار سالہ مسلم حکمرانی کا جشن
بھارت نے 16دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کا دن بھر پور جوش و جذبے کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا ہے ،جواب آں غزل تو یہ ہے کہ پاکستان بھی ہندوستان پر ہزار سالہ مسلم حکمرانی کا جشن منائے، اور مسلم حملہ آوروں کے سامنے بھارتی سورمائوں کے بکری بننے کی تاریخی داستانیں ٹیبلو کے انداز میں پیش کی جائیں، سقوط ڈھاکہ کا دن منانا بھارتی کمینہ پن کی منہ بولتی تصویر ہے یہ جان بوجھ کر پاکستان کو جنگ میں پھنسانے کی ایک اور کوشش ہے، دام حرب میں پائوں بھی نہ رکھا جائے، اور یہ بھی باور کرا دیا جائے کہ تاریخ خود کو دہرا بھی سکتی ہے ہندو ذہنیت ہے کہ اگر اسے جواب ملتا رہے تو وہ صحت مند رہتا ہے، بھارت آج بہت مجبور ہے کہ اسے بالواسطہ جنگ مسلط کرنے کیلئے لومڑی کا کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت نے ایک دن ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہے کیونکہ اس کی بنیاد میں پتھر کے صنم ہیں اور پاکستان کی بنیاد لاالہ الااللہ پر رکھی گئی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور ہماری اپنی کوتاہیوں اور بعض افراد کی غداریوں سے بھارت نے لقمہ تر اٹھا کر خود کو فاتح ڈھاکہ قرار دیدیا یہ جعلی دن منانا دراصل پاکستان کواکسانا ہے مگر اب بھی ہماری جانب سے کوئی پیش قدمی نہیں ہو گی اور خود بھارت اب اس پوزیشن میں نہیں کہ پہلے کی طرح شب خون مارنے کی جرات کر سکے، پاکستان جاگ رہا ہے اگر اب بھارت نے کوئی جنگی جارحیت کی تو شاید اس کا وجود خطرے میں پڑ جائے، ہم یہ چتائونی دیتے ہیں کہ بھارت کی تباہی کا باعث انتہا پسند ہندو تنظیمیں اور ان کی گندی سیاست بنے گی، مودی انتہا پسندی کا علم اٹھائے جو حرکتیں کر رہے ہیں ان کی بھاری قیمت پورے بھارت کو چکانا پڑے گی، اس لئے بھارتی اعتدال پسند سیاسی سماجی حلقے مودی کو لگام دیں کہ سقوط ڈھاکہ منانے سے بھارت مزید کمزور ہو گا۔
٭ ٭ ٭ ٭
اڑن موٹر سائیکلیں !
لاہور جو کبھی باغوں بہاروں نگاروں اور اونچے برجوں کا شہر ہوا کرتا تھا اب موٹر سائیکلوں کا شہر بن گیا ہے ان بے لگام اڑن موٹر سائیکلوں نے کئی قیمتی جانیں ہم سے چھین لیں، یہ ایک ایسی سواری ہے کہ اس کے سواروں کا کوئی قاعدہ قانون نہیں، یہ سوئی کے ’’نکے‘‘ میں سے موٹر سائیکل گزارنے کی کوشش میں کسی کی جان پر سے گزر جاتے ہیں ان کے متاثرین کیا اب بغیر موٹر سائیکل کے ہیلمٹ پہن کر سڑک کے کنارے کنارے چلیں یا کسی سواری کے انتظار میں کھڑے ہوں ان کی اب تک کوئی الگ لین طے نہیں ہو سکی، ٹریفک انتظامیہ نے اگر جتنی توجہ کاغذات چیک کرنے پر دی بائیکرز کو اپنا مخصوص ٹریک اختیار کرنے پر دی ہوتی تو ہمارے انتہائی قیمتی اور شفیق ، شفیق مرزا رکشے کے انتظار میں سڑک کنارے کسی تیز رفتار موٹر سائیکل کی زد میں آکر جان کی بازی نہ ہارتے، اگر کوئی راہگیر اسٹاپ پر، فٹ پاتھ پر بھی ان اڑن کھٹولوں سے محفوظ نہیں تو پھر اس سواری کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک کار آمد سواری ہے بشرطیکہ اسے کسی قاعدے قانون کے مطابق دوڑایا جائے، ہزاروں افراد کو منزل پر پہنچانے والی یہ سواری سڑک کے ہر حصے پر ناچتی اور نچاتی ہے، کوئی ضابطہ نہیں کوئی روک ٹوک نہیں، یوں لگتا ہے موٹر سائیکلسٹ اس کمپلیکس کا شکار ہیں کہ کچھ بھی ہو انہوں نے تیز سے تیز رفتار گاڑی کو پیچھے چھوڑنا ہے اور یہ زگ زیگ چلنے والی سواری شہریوں کو براہ راست موت کا راستہ دکھا دیتی ہے، سڑک پر ان کیلئے جب تک الگ ٹریک مخصوص کرکے عملدرآمد نہیں کرایا جاتا تو پھر ایک ہی حل ہے کہ ان کے لئے ڈیڑھ انچ کی الگ سڑک ،سڑک پر دیوارکھڑی کرکے بنائی جائے ۔
٭ ٭ ٭ ٭
گداگر انڈسٹری
کوئی بھی غیرت مند شخص کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور نہ ہی مستقل بنیادوں پر کسی چوک پر کپڑا بچھا کے بھیک مانگتا ہے یہ ایک مافیا ہے جسکی بڑی طویل داستانیں میڈیا کئی بار پیش کر چکا ہے، انتظامیہ کبھی کبھی ان کے خلاف کریک ڈائون کرتی ہے اور یہ تجاوزات کی مانند اگلے روز پھر جگہ جگہ مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت انسداد گداگری کیلئے کوئی الگ سیل علیحدہ مخصوص فورس بنائے جن کا کام ان گداگروں کو پکڑنا ہو، ان میں سے جو واقعتاً مجبور ہوں معذور ہوں ان کو بیت المال سے اتنی رقم دے جس سے ان کا گزارہ ہو، باقی جو مشتنڈے گداگر ہوں یا کسی گداگر تنظیم کیلئے کام کرتے ہوں ان کی چھان بین کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اشاروں پر کھڑی گاڑیوں کا گھیرائو کر لیتے ہیں ان میں عورتیں، بوڑھے، بچے سبھی شامل ہوتے ہیں ۔الغرض ہمارا ملک کیا ایک کاسہ گدائی ہے ۔
کہ درویشی بھی گداگری ہے سلطانی بھی گداگری
٭ ٭ ٭ ٭
چپ کر دَڑ وَٹ جا
٭ پرویز خٹک :سی پیک سے پختونخوا کا مستقبل سب سے زیادہ شاندار نظر آ رہا ہے ۔
نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرنے کا وزیر اعظم کی جانب سے شکریہ قبول فرمائیں۔
٭ ینگ ڈاکٹرز اور کلرکوں کا پھر احتجاج، سڑکیں بند، شہری خوار،
حکومت پنجاب ہفتے کا ایک دن بطور ’’یوم احتجاج‘‘ طے کرے جو اس کی خلاف ورزی کرے، اسے شہری گرفتار کرلیں، اب ہمارے شہر، شہر ی چلائیں گے، ان کی شکلیں حکمرانوں سے ملتی جلتی ہیں۔
٭ یہ چنبہ ہائوس معمہ کیا ہے ؟
چپ کر دَڑ وَٹ جا

.
تازہ ترین