• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی سیاست کے اُفق پر چھائی دھند چھٹ چکی۔ نوشتہ دیوار صاف پڑھا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی رواں حکومت اپنی بقیہ آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔وزیر اعظم کے اہل خانہ پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ہم سب کو فیصلے سے متعلق توقعات باندھنے سے پہلے نظام عدل و انصاف میں شہادتوںکی اہمیت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ واقعات ویسے ہی ہوں جیسے بطور مدعا پیش کئے گئے ہوں لیکن عدالت کے روبرو قانون شہادت کے ضابطوں کے مطابق ثابت کرپانے پر ہی فیصلے کا انحصار ہوتا ہے۔ ایک اچھے وکیل کی خصوصیات میں ایک اہم وصف یہ بھی شمار ہوتا ہے کہ اُسے مقدمے کے ممکنہ مقدر کا اندازہ ہو۔راقم غالب کے اس شعر پر اکتفا کرتے ہوئے اس مقدمےکےفیصلے کے سلسلے میں خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اس کے تسلسل اور بقا کےبارے میں سوالیہ نشان اُبھر آئے تھے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے شاہراہ دستور پر برپا کردہ طویل ہنگاموں کے دوران پوری قوم سکتے میں رہی۔ وزیر اعظم کے استعفیٰ کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کے کفن پوش دستوں اور عمران خان کے امپائر کی انگلی اُٹھنے کے دعوئوں اورمیڈیا کے ’’صبح گیا کہ شام گیا‘‘ پر مبنی تجزیوں نے عجب غیر یقینی صورتحال پیدا کئے رکھی۔ طاہر القادری کابوجوہ دھرنا ختم کر کے واپسی کی راہ اختیار کرنے اور عمران خان کا سانحہ پشاور کے نتیجے میں دھرنا ختم کر لینے سے عوام اعصابی تنائو سے باہر آپائے۔یہ سارا کھیل کیونکر اور کس کے اشارے پر قومی منظر نامے کا حصہ بنا،اس کا جواب میاں نوازشریف، پرویز مشرف، ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔
میاں نواز شریف اور انکی حکومت ابھی اس جھٹکے کے اثرات سے باہر بھی نہ آپائے تھے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی پاکستان آمد اور ہمارے وزیر اعظم کی اہلیہ کے ساتھ دوپٹہ بدل بہن کا واقعہ رونما ہوگیا۔اس واقعہ سے لگی آگ ابھی بجھ بھی نہ پائی تھی کہ وزیر اعظم کی نواسی کی شادی پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بظاہر اتفاقیہ مگر در حقیقت طے شدہ آمد اور اُن کے سر پر ’’ پگ‘‘ رکھے جانے کے واقعہ نے اس پر تیل چھڑک کر مزید بھڑکا دیا۔ کشمیر، سیاچن، دریائی پانیوں اور ملکی سا لمیت اور بقا کے معاملات میں بھارتی ہٹ دھرمی کے جاری رہتے ہوئے اُس سے دوستانہ روش سے حکومت کو باز رکھنے کیلئےکچھ خاص قوتوںکو ایک بار پھر حرکت میں آنا پڑا۔عمران خان کے اسلام آباد بند کر کے حکومت معطل کر دینے کے اعلامیہ اور کینیڈا سے ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے واقعہ کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے، بھلا ہو شہباز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثا ر کا جن کی عقلمندی کی وجہ سے معاملہ بگڑتے بگڑتے رہ گیا۔نواز شریف نے اپنی طویل سیاسی زندگی میں پہلی دفعہ یہ تسلیم کیا کہ پاک بھارت سلگتے مسائل کے حل کے بغیراُس سے دوستی سے اجتناب ہی ملکی اور قومی وقار اور مفاداور خود اُن کے لئے بہتر راستہ ہے۔سیاسی اور عسکری قیادتوں میں اس تصفیہ کی خفیہ خبرپاتے ہی ڈاکٹر طاہر القادری عمران خان پر سرد مہری اور اُن کے ساتھ بعض معاملات پر اختلا ف اور تحفظات کا بہانہ تراش کر کینیڈا واپس سدھار گئے جبکہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا معاملہ سپریم کورٹ میں چلے جانے کے باعث عمران خان بھی اسلام آباد بند کرنے کے معاملے سے دستبردار ہوگئے۔یہ سب کچھ ہو چکنے کے باوجود حکومت کے ممکنہ دھڑن تختہ کی افواہیں گردش میں رہیں۔ مسلح افوا ج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی نومبر کے آخر میں مدت ملازمت پوری ہونے پر توسیع یا عدم توسیع کے سوال پر عسکری اور سیاسی قیادت میں تصوراتی اختلافات بُن کریار لوگ اکتوبر 1999جیسی صورتحال کے واقعہ ہونے کے منتظر رہے۔ اُن کے ساتھ چشم فلک نے بھی خوشگوار اور لائق فخر ماحول میں عسکری قیادت کی تبدیلی کا منظرکھلی آنکھوں سے دیکھا۔اب تو ہمدم دیرینہ شیخ رشید احمد نے بھی موجودہ حکومت کے آئندہ عام انتخابات تک چلتے رہنے کا نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہو گا اور اپنی خفت مٹانے کیلئے موصوف کے پاس اب سپریم کورٹ میں وزیر اعظم اور اُن کے اہل خانہ پر لگائے گئے الزامات کی عدالتی انکوائری کا موضوع ہی بچا ہے۔ انہیں مشورہ ہے کہ حکومت کے مرگھٹ پر اُترنے کی تاریخیں صادر کرنے کے بجائے وہ قوم کو سچائی کے ساتھ بتائیںکہ وہ جو پیش گوئیاں کرتے رہے وہ حقیقت کا رُوپ کیوں نہ دھار پائیںاور استاد ذوق کا یہ شعر گنگائیں
کہتے تھے تم کو دیکھ سکیں ہم نہ غیر پاس
پر جو خدا دکھائے سو لاچار دیکھنا
آئندہ عام انتخابات کے پیش منظر میں پیپلز پارٹی کہیں کھڑی دکھائی نہیں دیتی، ابھی ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلاول کے پوسٹر ز سے جناب آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی تصویریں غائب کر دی جائیںاور ان کے دونوں شخصیات سے کلیتناً آزاد ہونے کا عوامی تاثر قائم ہوجائے تو شاید بات بن جائے جو کہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ 2018کے عام انتخابات کی اصل سیاسی قوتیںمسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی ہی ہوں گی۔
عمران خان کو بدلے ہوئے حالات میں اب تسلیم کر لینا چاہئے کہ غیر سیاسی قوتوں کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے امکانات پولنگ کے دن تک ختم ہوئے۔ انہیں چاہئے کہ مہم جوئی کی روش ترک کر کے پارٹی کو مضبوط بنیادیں فراہم کریں اور اس کے ساتھ ساتھ کے پی کو مثالی صوبہ بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کر دیں۔ مسلم لیگ ن کو اپنے اقتدار کے بقیہ عرصہ کے دوران اب سڑکوں، پلوں، چوکوں اور چوراہوں کی تعمیر و تزئین،میٹروبس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کے ساتھ ساتھ روزگار، تعلیم، علاج اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔اُمید ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے دوران عوام پہلے سے بہتر انداز میں اجتماعی دانش کا مظاہرہ کریں گے۔

.
تازہ ترین