• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس، سپریم کورٹ کے سنجیدہ سوال، جدہ مل کیسے خریدی، رقم بیرون ملک کیسے گئی

اسلام آباد(نمائندہ جنگ، نیو ایجنسیاں)عدالت عظمیٰ میں’’پاناما پیپرز لیکس کیس‘‘ کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل شروع کردیئے ہیں جو آئندہ سماعت پر بھی  جاری رہیں گے۔ فاضل عدالت نے نعیم بخاری سے شریف خاندان کے کاروبارکے حوالہ سے متعدد سوالات کئے ہیں کہ بتایا جائے کہ جدہ اسٹیل ملز کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا تھا؟ جدہ سے رقم لندن کیسے منتقل کی گئی؟ درخواست گزار 2006سے پہلے آف شورکمپنیوں سے تعلق ثابت کردے تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔دوران سماعت فاضل ججز صاحبان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے اسمبلی فلور اور عدالتی بیان میں تضاد ہے، پہلے کہا گیا کہ جدہ کیلئے رقم دبئی فیکٹری سے حاصل ہوئی، عدالت میں کہا گیاکہ دبئی والا پیسہ قطر میں لگایا گیا، سب باتیں میاں شریف کے بارے میں ہیں، وزیراعظم اور بچوں کا کیا کردار ہے؟ دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے عمران خان کے وکیل مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اخبار میں جو چھپتا ہے وہ مان لیں؟ تو کیا آپ کے موکل عمران خان کے بارے میں انگریزی اخباروں میں پچھلے تیس سالوں سے جو چھپتا آرہا ہے کیا اس کو بھی سچ مان لیں ؟ فاضل جج صاحب نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں وہ متعلقہ حکام سے تصدیق شدہ نہیں ہیں، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ یہ دستاویزات انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ کی گئی ہیں،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب قطری شہزادے کا خط تصدیق شدہ نہیں تو اس پر غور کیوں کریں۔ عدالت کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ مریم نواز 2006 میں ٹرسٹی تھیں تو 2012 میں متعلقہ کمپنیوں نے انہیں مالک کیوں قرار دیا۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل 6 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ،جسٹس امیر ہانی مسلم،جسٹس شیخ عظمت سعیداور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے بدھ کے روز آئینی درخواستوں کی سماعت کی تو درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے اپنی ایک نئی متفرق درخواست کے حوالہ سے کہا کہ اس کیس کی پچھلی سماعت کے بعد قومی میڈیا میں عمران خان کے سابق وکیل حامد خان سے متعلق بہت منفی باتیں کی گئی تھیں اس قسم کے تبصروں سے کیس پر اثر پڑے گا۔ ا نہوں نے عدالت سے میڈیا کو اس کیس پر تبصرے کرنے سے روکنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی تو فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان سینئر وکیل اور اعلیٰ سطح کے جیورسٹ ہیں،جنہوں نے قانون پر متعدد کتابیں لکھی ہیں ان سے متعلق ایسی خبروں سے انکی ساکھ کو ذرانقصان نہیں ہوتا،تاہم انہوں نے اس حوالہ سے حکم لکھوایا کہ اس مقدمہ کی کوریج کے دوران قومی میڈیا بہت ہی احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ درخواست گزار عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے پا ناما پیپرز لیکس کے حوالہ سے اپنے خطابات میں قوم کے سامنے سچ نہیں بولاہے،وہ ٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ دوبئی والی فیکٹری کب بنائی گئی تھی؟ ہم ریکارڈ سے ثابت کرینگے کہ وہ فیکٹری بے نامی تھی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اخبار میں جو چھپتا ہے وہ مان لیں ؟ تو آپ کے موکل کے بارے میں انگریزی اخباروں میں پچھلے تیس سالوں سے جو چھپتا آرہا ہے کیا اس کو بھی سچ مان لیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ عدالت سے دستاویزات چھپائی گئی ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ کو کہا کہ آپ بتائیں کہ دستاویزات کیوں چھپائی گئی ہیں؟آپ کہتے ہیں کہ شیئر ہولڈر ہیں، آپ کو اس بات کا ثبوت دینا ہوگا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ 14 اپریل 1980 کو دبئی اسٹیل مل کا معاہدہ ہوا، معاہدے میں طارق شفیع کی نمائندگی انکے کزن شہباز شریف نے کی، طارق شفیع نے اپنے 25 فیصد شیئرز آہلی اسٹیل ملز کو 12 ملین درہم میں فروخت کئے تھے،وزیر اعظم 33 ملین ڈالر فروخت کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے فلور پر جھوٹ بولا ہے، انہوں نے کہا کہ رقوم کی منتقلی کی تفصیلات پیش نہیں کی گئی ہیں،رقوم کی منتقلی اور منی ٹریل کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے، وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس دبئی، سعودی عرب اور لندن فلیٹس کی کوئی منی ٹریل نہیں ہے، وزیر اعظم کے بیانات کے بعد وہ صادق اور امین نہیں رہے ہیں اس لئے انہیں عوامی عہدہ کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ جسٹس شیخ عظمت سعیدشیخ نے کہا کہ یہ بات آپ کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں وہ متعلقہ حکام سے تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ فاضل وکیل نے کہا کہ یہ دستاویزات انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ کی گئی ہیں،جس پرجسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پھر تو آپ قطری شہزادہ حمدبن جاسم کی تاریخ پیدائش بھی انٹرنیٹ سے ڈاون لوڈ کر لیں۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے سب کچھ میاں شریف نے کیا ہے، میاں شریف کے بچوں اور آگے سے انکے بچوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ سب دستاویزات میاں شریف کے بارے میں ہی ہیں، ہمیں نواز شریف اور ان کے بچوں کے بارے میں بتائیں؟ آپ کو شریف خاندان کی آف شور کمپنیو ں سے 2006 سے پہلے کا تعلق ثابت کرنا ہوگا،اگر یہ ثابت ہو گیا تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہو گا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ دبئی فیکٹری کی فروخت کے وقت وزیر اعلی شہباز شریف بطور نمائندہ پیش ہوئے تھے جس پر عدالت نے استفسارکیا کہ کاغذات پر دستخط کس کے تھے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کے اسمبلی کے فلور پر بیان اور عدالتی بیان میں تضاد ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے جدہ اسٹیل ملز کا سرمایہ لندن فلیٹس کی خریداری کیلئے استعمال نہیں کیا ہے تو جدہ اسٹیل ملز لگانے کیلئے پیسہ کہاں سے آیا تھا؟جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جدہ اسٹیل ملزکے فنڈز کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ تین اپریل کو قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے سچ نہیں بولا ہے، 16؍ مئی کو بھی قومی اسمبلی کے فلور پر بھی سچ نہیں بولا ہے۔ انہوں نے لندن فلیٹس کی خریداری کے ذرائع غلط بتائے ہیں اورٹیکس چوری کیا ہے،وزیر اعظم کے بیٹے نے تحفہ میں پیسے دیئے، مریم نواز وزیر اعظم کی کفالت میں رہی ہیں،لندن فلیٹس کی بھی مریم نواز بینیفشل مالک ہیں۔ فاضل وکیل نے کہا کہ مسول علیان کی جانب سے عدالت میں پیش کئے گئے قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خط نے وزیر اعظم کے پہلے تمام بیانات کی تردید کردی ہے کیونکہ خط میں وزیر اعظم کے خطابات کے متضاد موقف اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاناما پیپرز لیکس کے حوالہ سے چیئرمین نیب بھی اپنے فرائض ادا کرنے ناکام رہے ہیں اور انہوں نے اس معاملہ میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا ہے،جس پر ان کیخلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جا نی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کا اعترافی بیان دیا تھا اور اس اعترافی بیان پر عدالتی فیصلہ آ چکا ہے، مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ سے بھی کچھ ثابت نہیں ہو تا ہے،وزیر اعظم نے تقریر میں کہا کہ دبئی کی مل 9ملین ڈالرز میں فروخت ہوئی، وزیر اعظم کا یہ بیان بالکل غلط ہے، قطری شہزادے کے خط میں ملز کی قیمت فروخت 33ملین درہم بتائی گئی ہے،دبئی حکومت نے زمین لیز پر دی، یہ اسٹیل ملزکب قائم ہوئی کچھ پتہ نہیں ہے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دستاویز کے مطابق ملز کیلئے مشینری کو ٹیکس سے استثنیٰ بھی دیا گیا تھا۔ فاضل وکیل نے کہاکہ دوبئی کی ملز بے نامی تھی،دبئی ملز کی فروخت کا معاملہ طارق شفیع اور عرب کمپنی کے درمیان ہواتھا، شریف خاندان کی دستاویزات کے مطابق ملز کیلئے بی سی سی آئی بینک سے قرضہ لیا گیا تھا،کہتے ہیں 1978میں 75فیصد شیئرز فروخت کرکے قرض اتارا گیا تھا، مل فروخت کرکے 21ملین درہم قرض ادا کیا گیا،بی سی سی آئی بینک کے قرضے کی رقم 27.5ملین درہم تھی، مل کی فروخت کے بعد بینک کے چھ ملین درہم کا قرض واجب الادا تھا،1978میں مل فروخت کر کے وقت اس کی قیمت 36ملین درہم لگائی گئی، 980میں دوبئی مل کے باقی 25 فیصد شیئرز بھی فروخت کر دیئے گئے،فیکٹری کب تعمیر ہوئی کب مکمل ہوئی نہیں جانتے، 1980میں فیکٹری کے شیئرز کی فروخت کے وقت طارق شفیع کی نمائندگی شہباز شریف نے کی،طارق شفیع میاں شریف کے بھائی میاں شفیع کے بیٹے اور میاں شہبازشریف کے فرسٹ کزن ہیں،دبئی فیکٹری کے 25 فیصد شیئر12 ملین درہم میں فروخت ہوئے، وزیر اعظم نے کس طرح یہ کہا کہ فیکٹری 33ملین درہم میں فروخت ہوئی تھی۔جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ فیکٹری کے 75 فیصد فروخت کرکے 21 ملین جبکہ 25 فیصد شیئرز فروخت کرکے بارہ ملین جمع کریں تو کل 33ملین درہم بنتے ہیں؟ فاضل وکیل نے کہا کہ 21ملین درہم کی رقم تو بینک کو ادا کردی گئی تھی،شریف خاندان کو تو صرف 12 ملین درہم ملے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ شریف خاندان کا موقف ہے کہ بارہ ملین درہم کی رقم سے قطر میں سرما یہ کاری کی گئی تھی، شریف خاندا ن کے بیانات میں تضاد ہے،وزیر اعظم کے اسمبلی کے فلور کے اور عدالتی بیان میں تضادہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تقریر میں کہا گیا تھا کہ سرمایہ بچوں نے کاروبار کیلئے استعمال کیا ہے،وزیر اعظم نے جدہ اسٹیل ملز کا سرمایہ لندن فلیٹس کی خریداری کیلئے استعمال نہیں کیا ہے تو پھر جدہ اسٹیل ملز لگانے کیلئے پیسہ کہاں سے آیاتھا ؟جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قطر کی سرمایہ کاری سے لندن فلیٹس خریدے گئے تھے لیکن جدہ اسٹیل ملزکے فنڈز کی وضاخت نہیں ہے ۔وزیر اعظم نے بیان میں کہا کہ جدہ اسٹیل ملز کیلئے سرمایہ دبئی ملز سے لیا گیا تھا، نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم نے جدہ کی فیکٹری کیلئے سعودی عرب کے بینک سے بھی قرضہ لینے کاذکر کیا تھا، سعودی اسٹیل ملز کے متعلق ایک دستاویز بھی پیش نہیں کی گئی ہے،دستاویز میں دبئی اسٹیل ملز کا نام گلف اسٹیل ملز ظاہر کیا گیا تھا۔ نعیم بخاری نے قطر سے آنے والے خط پر دلائل دینے اور اسے پڑھنے کی اجازت طلب کی تو عدالت نے کہا کہ اگر یہ تصدیق شدہ نہیں تو اسے کیوں دیکھیں۔نعیم بخاری نے وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور صاحبزادے حسن نواز کے ٹیلی ویژن انٹریوز اور گارڈین اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کا حوالہ دیا تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے انہیں کہا کہ اخباری تراشوں کو لاکرسونے میں کھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں؟ کچی دیواروں پرپیرنہ جمائیں ، عدالت جو ضروری ہوتا ہے تو وہ مختلف کیسوں میں اخبارات کی خبروں کا حوالہ قبول کرتی ہے لیکن یہ پیچیدہ معاملہ ہے سیاسی منظر نامے میں سب ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے اور انکار بھی کر دیتے ہیں اِس معاملے میں ذرائع ابلاغ کا حوالہ کافی نہیں ہے۔دوران سماعت جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس کیس کی پانچ سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں اور اس میں مزید ٹائم ضائع کرنے کی بجائے کوئی رزلٹ نکالا جائے اور کمیشن مقرر کیا جائے عوام اس کیس کے حوالے سے جلد کوئی رزلٹ دیکھنا چاہتی ہے ۔  عدالت نے نعیم بخاری کو کہا کہ وہ منگل کے روز اپنے دلائل مکمل کریں بعد ازاں کیس کی مزید سماعت منگل 6 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ دوران سماعت کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان،سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی جہانگیر ترین، شفقت محمود، اسحاق خاکوانی، شیری مزاری، بابر اعوان، امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق،نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں محمد اسلم ،اسد اﷲ بھٹو،وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف، مریم اورنگزیب، وزیر کیڈ طارق فضل چوہدری، چوہدری عابد شیرعلی،دانیال عزیز،محمد زبیر اور دیگر مسلم لیگ کے رہنماء موجود تھے۔
تازہ ترین