• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماحولیاتی تبدیلی ہے کیا ؟ ... خصوصی مراسلہ…فرحین آمنہ فرید

پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلی کے نقصانات پر تشویش میں مبتلاہے اس لئے ہر ملک میں ایک ہی موضوع زیربحث ہے اور وہ ہے ماحولیاتی تبدیلیاں۔ جس طرح دنیا کا ہر ملک ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہورہا ہے اس ہی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں اور تغیرات کا براہ راست شکار ہے۔ جس کا اندازہ گزشتہ چند برسوں میں مختلف قدرتی آفات سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے تاہم غور طلب امر یہ ہے کہ دنیا اس بات سے باخبر تھی کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خوفناک اثرات کا سامنا ہوگا لیکن کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی گئی بالخصوص پاکستان میں اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ جس کا ثبوت 2010کا سیلاب ہے۔ دراصل کچھ چیزیں ایسی تلخ حقیقت ہیں کہ ان سے انکار ناممکنات میں سے ہے ان میں سے ہی ایک ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جن کو ہر صورت ہونا ہے ماہرین کے مطابق ہر 100 برس بعد ماحولیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال سمندر کے درمیان مختلف جزائر کا ابھرنا اور معدوم ہوجانا ہے، بات صرف یہ ہے کہ جس چیز کو وقوع پذیر ہونا ہے وہ ہوکر رہتی ہے لیکن اگر اس سے نمٹنے کی تیاری مکمل ہو تو یقینی طور پر نقصان قدرے کم ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہمارے ملک میں ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی کے باب میں برائے نام آگاہی پروگرام ترتیب دیئےجاتے ہیں جہاں صرف ہوائی باتوں کے کچھ نہیں ہوتا،ادارے یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب تک ایک عام آدمی واقف نہیں ہوگا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں کیا ہیں اور ان سے کس طرح بچائو ممکن ہے اس وقت تک محض ڈالرز حاصل کرنے کیلئے کی جانے والی ورک شاپسز یا گفت و شنید کی نشستوں کے کوئی فائدہ نہیں ۔ بنیاد طور پر ماحولیاتی تبدیلی چیلنج سے نمٹنے کیلئے عوام میں آگاہی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دراصل ماحولیاتی تبدیلیاں ایک قدرتی عمل ہےجسے 21ویں صدی میں وقوع پذیر ہونا تھا جو ہوچکی ہے، اگر عام فہم الفاظ میں کہا جائے تو ماحولیاتی تبدیلیوں میں معمول کے مطابق ہونے والے واقعات کااچانک وقوع پذیر ہونا، جیسے اچانک تیز بارش کا ہونا، طوفانوں میں شدت آجانا، زلزلوں میں اضافہ، موسموں کا بدل جانا، مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ ماحولیاتی ایونٹس ناقابل پیشن گوئی ہوجائیں تو یہ موحولیاتی تبدیلی کہلاتی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کارخانوں اور زراعت سے ہونے والے گیسوں کے اخراج کی وجہ سے قدرتی گرین ہاؤس عمل میں اضافہ ہو رہا ہے، زمین کا کرۂ ہوائی سورج سے آنے والی توانائی کو قید کر کے اسے باہر نکلنے نہیں دیتا،بلند درجۂ حرارت، شدید موسمی حالات اور سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح، سب کا تعلق گرم ہوتے ہوئے ماحول سے ہےجس سے دنیا بھر پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں،قطبین پر برفانی تہوں کا پگھلاؤ بھی اس اضافے کی اہم وجوہ میں شامل ہے،ْبڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے قطبی سمندر بھی سکڑ رہا ہے، تاہم اس کا سمندر کی چڑھتی ہوئی سطح پر زیادہ اثر نہیں ہوتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات سے بچاؤکیسے ممکن بنایا جائے ،اس سلسلے میں رواں برس پیرس میں کئے گئے معاہدے پر عمل درآمدشروع ہوگیا ہے لیکن جب تک عوامی سطح پر تربیتی مہم نہیں چلائی جائے گی تب تک خاطر خواہاں نتائج برآمد نہیںہونگے ، اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر آگاہی مہم چلانی چاہئے ،عوام کو بتایا جائے کہ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو آپ کو اپنا بچائو کس طرح کرنا ہے۔ جب تک عوام میں تربیت اور آگاہی نہیں ہوگی اس وقت تک بند کمروں میں کئے جانے والے پروگراموں کا کچھ حاصل حصول نہیں۔

.
تازہ ترین