• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے نومنتخب صدر اور وزیر اعظم پاکستان کے درمیان پہلے ٹیلیفونی رابطے میں جس غیرمعمولی گرم جوشی کا اظہار سامنے آیا اور 20؍جنوری 2017ء سے منصبی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاریوں میں مصروف ڈونلڈ جے ٹرمپ نے پاکستان کے تصفیہ طلب مسائل کا حل تلاش کرنے اور انہیں حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی جس خواہش کا اظہار کیا، وہ پاکستانیوں کیلئے بڑی حد تک حوصلہ افزا ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر سے مذکورہ ٹیلیفونی رابطہ بدھ کے روز وزیراعظم میاں نواز شریف نے نومبر میں منعقدہ امریکی صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی پر مبارکباد دینے کیلئے کیا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت سے قائم پاک امریکہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ سات عشروں کے دوران کئی نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود باہمی تعاون میں اضافے کا ذریعہ رہی ہے۔ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت سے سلامتی کے جن خطرات کا سامنا رہا ہے ان میں واشنگٹن اسلام آباد فوجی و اقتصادی تعلقات تقویت کا باعث رہے ہیں۔ اسکے جواب میں امریکہ کو بھی پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کے علاوہ ان جذبات کے فوائد حاصل رہے جو دوستوں کے سلسلے میں پاکستانی قوم کا خاصہ ہیں۔ ان فوائد میں واشنگٹن بیجنگ تعلقات کا وہ باب بھی شامل ہے جس کے سلسلے میں اسلام آباد نے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ اب اسی بیجنگ کے ساتھ مل کر اسلام آباد جس اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام کررہا ہے وہ پاکستان اور چین ہی نہیں، پورے خطے اور دنیا میں تجارتی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز اور بے شمار لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلئے امریکہ سے، جسے تبدیل کرنے کے دعوے کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ مسند صدارت کی طرف بڑھ رہے ہیں، یہ توقع بے محل نہیں کہ وہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں دہشت گردی و احساس محرومی کے سدباب کا ذریعہ بننے والے اس منصوبے کا خود بھی حصہ بنے گا اور ان ممالک کی حوصلہ شکنی بھی کرے گا جو مذکورہ منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا ارادہ ظاہر کررہے ہیں۔ پاکستان ایسے خطے میں واقع ہےجو 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت سے تنازع کشمیر کے باعث کئی جنگوں کا شکار ہوچکا ہے مذکورہ تنازع اس وقت بھی ایٹمی فلیش پوائنٹ بن کر عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ اس کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع ریاست جموں و کشمیر میں استصواب رائے نہ ہونے اور اسلام آباد کو کرائی گئی امریکی یقین دہانیوں پر عمل نہ ہونے کے باعث کئی دیگر سنگین مسائل جنم لے چکے ہیں جن میں نیا مسئلہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند سے محروم کرنے کے بھارتی دعوے ہیں جبکہ قبل ازیں القاعدہ اور طالبان انتہا پسندوں کی کمر ٹوٹنے کے بعد پاکستان میں داعش کو داخل کرنے کے عزائم کا برملا اظہار کیا جاچکا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ صورتحال تشویش انگیز ہےکہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات کی استواریت سے کشمیر سمیت دیرینہ تنازعات کا حل برآمد ہونے کی بجائے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی اور نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حوالے سے بھارت کو ترجیح دی جاتی محسوس ہورہی ہے۔ نومنتخب امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم اور عوام کیلئے جس گرم جوشی کا اظہار کیا، اس پر پاکستانی قوم ان کی ممنون ہے اور توقع رکھتی ہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں اور پاکستانی نژاد امریکیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں مستقبل کے اندیشوں سے نکالا جائیگا۔ مسلم دنیا کے مسائل کے حوالے سے امریکی تھنک ٹینکس کی ناکامی کا اظہار اسرائیل اور مسلم ممالک کے درمیان ایسے امتیاز کی صورت میں ہورہا ہے جس میں امریکہ ایک فریق بنا نظر آتا ہے۔ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کے حل کا نہ ہونا اور سپرپاور کا یکطرفہ جھکائو دہشت گردی کے متعدد اسباب میں سے ایک کہا جاسکتا ہے۔امریکہ ان معاملات میں ثالثی کردار ادا کرکے امن و آشتی کا سازگار ماحول پیدا کرسکتا ہے۔ پرائیویٹ بزنس کے شعبے سے آنے والے ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ توقع بے محل نہیں کہ وہ روایتی سفارتکاری سے ہٹ کر آزادی خیالی سے نہ صرف دیرینہ مسائل حل کرنے کے نئے راستے نکال سکیں گے بلکہ پاک امریکہ تعاون کو نئی جہتیں بھی دیں گے۔

.
تازہ ترین