• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کتابیں، اخبارات اور مضامین پڑھتے ہوئے میں اس مقام پر رک جاتا ہوں جس کی سچائی بظاہر مجھے مشکوک لگے۔ آپ کو علم ہے کہ ہنری کسنجر امریکہ کا طاقتور وزیر خارجہ تھا اور کسی دور میں اس کے علم و دانش، ڈرانے، دھمکانے اور مطلب نکالنے والی ڈپلومیسی کی بڑی دھوم تھی۔ یہ وہی ہنری کسنجری ہے جس نے ایٹمی پروگرام بند نہ کرنے پر اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ’’بدترین مثال‘‘ بنانے کی دھمکی دی تھی۔ اس دھمکی کا ذکر کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی میں کہاتھا کہ ہاتھی اس کی زندگی اور جان کے درپے ہے ۔ ہاتھی امریکی سیاسی پارٹی ری پبلکن کا پارٹی سمبل ہے جس طرح تیر پی پی پی کا اور شیر مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان یا سمبل ہے۔ گزشتہ دنوں ضعیف العمر ہنری کسنجر نے معتبر تحقیقی رسالے ’’انٹلانٹک‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک عجیب و غریب بات کی ہے جو مجھے بظاہر قرین قیاس نہیں لگی۔ آپ کو علم ہے کہ 16دسمبر 1971کو پاکستان ٹوٹ گیا تھا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ سابق امریکی صدر نکسن اور وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان کے اس بحران میں شریک (Involve) تھے اور ہنری کسنجر نے اپنی کتاب (White House Years) میں واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ کا جھکائو (TILT) پاکستان کی جانب تھا لیکن اس کی ہمدردیاں بنگالیوں کی تحریک آزادی کے ساتھ تھیں۔ ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے روس کے ساتھ مل کر پاکستان توڑ دیا اور امریکہ عملی طور پر پاکستان کی مدد نہ کر سکا۔ امریکی ساتواں سمندری بیڑا جس کا ان دنوں بڑا ذکر تھا محض ’’شو آف پاور‘‘ تھا۔ امریکہ ہر قیمت پر مغربی پاکستان کو بچانا چاہتا تھا کیونکہ سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق اندراگاندھی مغربی پاکستان پر حملہ کرنے اور پاکستان کی ’’ملٹری مشین‘‘ کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ چین سے تعلقات استوار کروانے کی وجہ سے صدر نکسن صدر یحییٰ خان کا معترف تھا اور اس کے لئے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ چنانچہ امریکہ نے روس کے ذریعے بھارت پر دبائو ڈالا اور اسے مغربی پاکستان پر یلغار سے باز رکھا۔ یہ ہیں وہ دعوے جو ہنری کسنجر نے نہ صرف اپنی کتاب بلکہ اپنے تحقیقی مضامین میں بھی کئے۔ میں جن دنوں اپنی کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا‘‘ (Pakistan Divided)کی تحقیق کے حوالے سے مواد کے سمندر میں غوطہ زن تھا ان دنوں مجھے یہ سارا مواد کھنگالنے کا موقع ملا۔ اس وقت تک ہنری کسنجر نے ایسا کوئی انکشاف نہیں کیا تھا کہ امریکی صدر سے پاکستانی صدر یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کو آزادی دینے کا کوئی وعدہ کیا تھا۔
اب ’’انٹلانٹک‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ہنری کسنجر نے دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 1971میں صدر یحییٰ خان نے امریکی صدر نکسن کی تجویز پر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ مارچ 1972 میں مشرقی پاکستان کو آزاد کردے گا لیکن تین دسمبر 1971کو ہندوستان نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور سولہ دسمبر کو پاکستانی فوج سے ہتھیار ڈلوا کر بنگلہ دیش قائم کردیا۔ اسی روز اندرا گاندھی نے اعلان کیا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ پاکستان ہندوستان تعلقات کے موجودہ تنائو اور ہندوستانی وزیر اعظم مودی کی مخصوص ذہنی منافرت کے پیش نظر ہندوستان نے سولہ دسمبر کا دن جوش و خروش سے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقصد پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنا، پاکستان کو شکست کی یاد دلانا، اپنی فوجی برتری کے زعم کا احساس پیدا کرنا، بنگلہ دیش کا خالق ثابت کرکے پاکستان میں علاقائی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور مزید برآں بنگلہ دیش کے یوم آزادی (16دسمبر) پر مسرت اور جوش و خروش کا اظہار کرکے بنگلہ دیش کے عوام سے یک جہتی کا اظہار کرنا اور دوستی کا پیغام دینا ہے۔ کہنے کو تو اندرا گاندھی نے جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے بڑھک مار دی کہ اس نے اپنے بزرگوں کی حماقت کا حساب بیباک کرتے ہوئے دو قومی نظریےکو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے لیکن وہ بنگالی لیڈروں کو اپنے آئین میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے سے نہ روک سکی اور نہ ہی بنگلہ دیش کو ہندوستان کی کالونی یا صوبہ بنا سکی جو اس کی قلبی خواہش اور حکمت عملی تھی۔مجھے 1999 میں یونیسیکو کے ایک وفد کے سربراہ کی حیثیت سے بنگلہ دیش جانے اور دس روز قیام کرنے کا موقع ملا۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، پروفیسروں، طلبہ، چند ایک سیاستدانوں اور افسران سے ملنے کے مواقع ملے۔ ایک حقیقت واضح تھی کہ بنگالی مسلمان ہندو سے شدید نفرت کرتا ہے، ہندوستان کی بالادستی کا دشمن ہے اور اپنی قوم پرستانہ آزادی پہ نازاں ہے۔ مجھے بعض ایسے بزرگ ماہرین تعلیم بھی ملے جنہوں نے پاکستان سے قریبی تعلقات قائم کرنے یا کنفیڈریشن کے تشکیل کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہی محترمہ حسینہ واجد اس وقت بھی وزیر اعظم تھیں۔ ان سے ملاقات طے تھی لیکن انہوں نے پاکستانی کا نام پڑھ کر ملنے سے انکار کردیا اور وزیر تعلیم کو حکم دیا کہ وہ یونیسیکو کے وفد کو چائے پلا کر فارغ کردے۔ اس دورے میں ایک دلچسپ خبر سنی کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد بہت سے ہندو تاجر اور خاندان ہندوستان ہجرت کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان سے کوئی ہندو خاندان ہندوستان جائے تو ہماری بعض این جی اوز میڈیا میں طوفان کھڑا کردیتی ہیں اور اسے اقلیتوں سے امتیاز کا شاخسانہ قرار دیتی ہیں۔ غیر ملکی امداد پر پلنے والے روشن خیال یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہندوستان بنیادی طور پر دنیا کی واحد ہندوریاست ہے۔ اب ہندوستان عالمی قوت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے اس لئے پڑوسی ممالک کے ہندوئوں کے لئے روحانی مرکز اور ’’قبلہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا یہ بڑی نفسیاتی کشش نہیں ہے۔
بات چلی تھی کسنجر کے انکشاف سے جو مجھے قرین قیاس نہیں لگا کیونکہ یحییٰ مشرقی پاکستان کو کیسے آزادی دے سکتا تھا؟ کیا وہ اپنا ملک توڑ سکتا تھا؟ وہ ایسا کرتا تو عوام اس کی تکا بوٹی کر دیتے۔ نومبر 1971تک اعلان معافی کے بعد کچھ مہاجرین واپس آ چکے تھے، قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو چکے تھے، اجلاس بلاکر نئی حکومت تشکیل دینے کی تیاری مکمل تھی پھر یحییٰ خان کس اختیار کے تحت مشرقی پاکستان کو آزادی دینے کا عندیہ دے رہا تھا؟۔

.
تازہ ترین