• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں پاکستان کی موجودہ پی ایم ایل (ن) حکومت ایسے عجیب و غریب اور مشکوک قسم کے اقدامات میں ملوث نظر آئی ہے کہ اندیشہ ہے کہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ ملک کے پاس فنڈز کے محفوظ ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے لہذا حکومت مجبور ہوگئی ہے کہ ملک کے کئی اہم اداروں کی اہم املاک ملکی اور بین الاقوامی اداروں کو ایک خاص عرصے کے لئے ان کے حوالے کرکے (ان اداروں کے پاس یہ املاک رہن رکھ کر ) خطیر رقوم حاصل کرنے کے بعد ملک کی ترقیاتی اور موجودہ مالی ضرورتیں پوری کرسکے۔
اس سلسلے میں ملک کی فنانس ڈویژن کے ایکسٹرنل فنانس کے شعبے کی طرف سے ’’ملکی و بین الاقوامی سکوک کے ذریعے رقوم کے حصول‘‘ کے نام سے 10 مئی 2016 ء کو ایک لیٹر جاری کیا گیا ہے‘ اس لیٹر کے ذریعے فنانس ڈویژن کی طرف سے آگاہ کیا گیا ہے کہ اس نے ملک کی موجودہ اور ترقیاتی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی مالی وسائل کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری لی ہے‘ یہ مالی وسائل فنانس ڈویژن بین الاقوامی اور ملکی کیپٹل مارکیٹوں سے حاصل کررہی ہے۔
اس لیٹر میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ اب تک فنانس ڈویژن نے پاکستان ڈومیسٹک سکوک کمپنی لمیٹڈ بنائی ہے جو 100 فیصد فنانس ڈویژن کی ملکیت ہے اور اس کمپنی کے ذریعے فنانس ڈویژن نے کئی ملکی املاک جن میں فیصل آباد بھٹیاں موٹر وے‘ اسلام آباد‘ لاہور موٹر وے‘ اسلام آباد پشاور موٹر وے اور جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کراچی شامل ہیں کو ڈومیسٹک سکوک کے ذریعے سمجھوتوں کے نتیجے میں 500 ارب روپے کی رقم حاصل کی ہے۔ اس لیٹر میں کہا گیا ہے کہ یہ سمجھوتے Competitive Coupon rates کے ذریعے کیے گئے اور اس کے نتیجے میں جو رقوم ملیں وہ بجٹ کی کمی کو دور کرنے (Budgetary Support) کے لئے استعمال کی گئیں۔ لیٹر میں مزید کہا گیا ہے کہ ان سکوک سمجھوتوں پر جو خرچ آیا بشمول کوپن فیس کی ادائیگی وغیرہ وہ سب فنانس ڈویژن نے برداشت کیں اور جن اداروں کی املاک کے عوض یہ رقم حاصل کی گئی ان سے اس سلسلے میں ایک پائی وصول نہیں کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لیٹر میں یہ بات ڈھکی چھپی زبان میں تسلیم کی گئی ہے کہ ملک کو بجٹ میں خاصے خسارے کا سامنا ہے مگر اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ ملک کو کتنے خسارے کا سامنا ہے مگر ایک بات تو سمجھ آتی ہے کہ خسارہ اتنا بڑا ہے کہ ایسے غیر معمولی اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں آخر ایسی صورتحال کو قوم سے کیوں چھپایا جارہا ہے‘ کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ یہ ساری صورتحال قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھی جائے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے پہلے پاکستان کی کسی حکومت نے ایسے اقدامات کیے‘ یہ بات بھی ظاہر نہیں کی جارہی ہے کہ کون سے ملکی اداروں کے پاس یہ ادارے گروی رکھ کر ان سے رقوم حاصل کی گئی ہیں مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔
اس لیٹر میں یہ بھی دل دکھانے والا انکشاف کیا گیا ہے کہ فنانس ڈویژن مزید رقوم کے حصول کے لئے پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی عمارتوں کے عوض نئے ’’اجارہ سکوک‘‘ جاری کررہی ہے۔ لیٹر میں یہ یقین دلایا گیا ہے کہ مجوزہ سکوک سمجھوتوں کے نتیجے میں پی ٹی وی اور پی بی سی کے لئے مالی ادائیگی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی‘ اس کے لئے فنانس ڈویژن نے آئی بی اینڈ این ایچ ڈویژن سے گزارش کی ہے کہ وہ پی بی سی کی عمارتوں کو سکوک سمجھوتوں کے لئے بورڈ میں ایک قرارداد منظور کرکے استعمال کرنے کی اجازت دیدیں۔ یہاں پھر یہ الفاظ استعمال کرنے سے احتراز کیا گیا ہے کہ پی بی سی کی یہ عمارتیں سکوک سمجھوتوں کے ذریعے کن اداروں کے پاس گروی رکھے جائیں گی۔ لیٹر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فنانس ڈویژن پی بی سی کی ملک بھر میں 61 عمارتوں کو سکوک سمجھوتوں کے ذریعے گروی رکھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں اس لیٹر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت نے 30 جون 2015 ء کو ان عمارتوں کی مالیت کا اندازہ لگایا کہ ان کی مالیت 725.605 ملین ہے‘ ملک کے کئی متعلقہ ماہرین کے مطابق ان عمارتوں کی مالیت کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے وہ بہت کم ہے‘ ان ماہرین کے مطابق ان عمارتوں کی مالیت اربوں روپے میں ہوگی۔
متعلقہ ماہرین نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ حکومت ان بین الاقوامی اداروں کے نام اب تک کیوں ظاہر نہیں کررہی جن کو ملکی اداروں کی املاک گروی رکھی جارہی ہیں یا رکھی گئی ہیں۔ ابھی یہ بات صیغہ راز میں ہے کہ پی ٹی وی کی کتنی عمارتیں گروی رکھی جارہی ہیں اور کتنی مالیت کے عوض۔ کئی متعلقہ ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر حکومت معاہدے کے مطابق مطلوبہ رقوم ان اداروں کو طے کی ہوئی مدت میں واپس نہیں کرتی تو کیا یہ املاک ملکی اور بین الاقوامی ادارے نیلام کرنے کے حق دار نہیں ہوں گے۔ ملک کے کئی اقتصادی ماہرین نے یہ بھی سوال اٹھائے ہیں کہ اگر ملک کی معیشت اتنی خراب ہوگئی ہے اور ملک کے Reserves اتنے نیچے آگئے ہیں کہ حکومت کو اتنے اہم اداروں کی املاک ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے پاس گروی رکھنی پڑرہی ہیں تو یہ سب حقائق قوم کے سامنے پیش کیوں نہیں کئے جاتےاور حکومت مسلسل جھوٹ کیوں بول رہی ہے کہ ملکی معیشت بہت آگے بڑھ رہی ہے‘ اس صورتحال کے پس منظر میں ان اعلانات کی کیا حیثیت ہے کہ 2018 ء تک ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ۔
یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اس بات کے برعکس کہ پاکستان کے وزیر خزانہ ملکی معیشت کے آگے بڑھنے کے بارے میں دن بدن بڑے اعلانات کرتے رہتے ہیں‘ غیر جانبدار اقتصادی ماہرین ٹی وی چینلز پر اور اخبارات میں اپنے تبصروں میں ان دعوئوں کو مسترد کرتے رہتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ ملکی معیشت کی حالت ابتر ہے مگر یہ بات تو ان ماہرین نے بھی ابھی تک نہیں بتائی کہ ملکی معیشت کی حالت اتنی ابتر ہے کہ شاید ملک دیوالیہ ہونے والا ہے لہذا ملکی ادارے رہن رکھے جارہے ہیں۔

.
تازہ ترین