• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل یہ ہوا کہ کراچی کے ہوائی اڈے پر طیارے کے انتظار میںتین گھنٹے گزارنے پڑے۔ کس قیامت کے تین گھنٹے تھے۔ ایک مجمع تھا اور موبائل فون تھے۔ مجھ کو چھوڑ کر ہر شخص، بلا مبالغہ ہر شخص یا تو فون کان سے لگائے ہوئے تھا، یا اس کی اسکرین پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ کچھ لوگ مسلسل اپنے پیغام ٹائپ کر رہے تھے۔ اور جو لوگ یہ سب نہیں کر رہے تھے وہ موبائل فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھے تھے۔ ایک صاحب انتظار گاہ کے صوفے پر یوں لیٹے تھے جیسے اپنے گاؤں کی کھاٹ پر لیٹتے ہوں گے۔ انہوں نے اپنی شلوار کے پائنچے اوپر چڑھائے ہوئے تھے اور ایک ہاتھ میں موبائل فون پکڑ کر کوئی فلم دیکھ رہے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے پیٹ کو کھجائے جارہے تھے۔ ان کا سامان ان کے ساتھ تھا، شکر ہے کہ اس میں المونیم کا لوٹا اور طوطے کا پنجرہ نہیں تھا۔ لوگ ہوائی جہاز کا سفر بالکل یوں کر رہے تھے جیسے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جارہے ہوں۔ ایک ہم تھے کہ تین تین گھنٹے پہلے جاکر کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ ٹکٹ پہ ہدایت درج ہے کہ تین گھنٹے پہلے پہنچو ورنہ ائیر پورٹ کے کواڑ بند کر دئیے جائیں گے۔ وہاں دیکھا کہ پہنچنے والے سب سے احمق ہم ہی ہوتے ہیں۔ لوگ اس کے ایک گھنٹے بعد اطمینان سے خراما خراما چلتے ہوئے عجب شان بے نیازی سے آتے ہیں۔ نہ سانسیں چڑھی ہوئی،نہ چہرے پر پریشانی، نہ کوئی گھبراہٹ نہ سراسیمگی۔یوں آتے ہیں جیسے انہیں یقین ہو کہ ان کے بغیر طیارہ اڑان نہیں بھر سکتا۔پھر ہمیں اپنے اضطراب کی سزا منزل مقصود پر پہنچ کر ملتی ہے۔ وہ یوں کہ سب سے پہلے اپنا اسباب جمع کرانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں ہمارا سامان سب سے آخر میں آتا ہے اور اس کا انتظار بڑا ہی جان لیوا ہوتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سبھی اپنا اپنا سامان اٹھاکر چلتے بنے اور نہیں آیا تو ہمارا ہی وہ سوٹ کیس جس کے دستے میں ہم نے پہچان کے لئے کوئی رنگین کپڑا باندھ رکھا ہے۔
ہوائی اڈے کے پبلک ایڈریس سسٹم یعنی لاؤڈاسپیکر کے نظام نے ہمیں ہمیشہ جتنے دکھ دئیے ہیں وہ ہمارا ہی دل جانتا ہے۔جن لوگوں کے ہاتھ میں مائیکروفون دیا جاتا ہے، ان کی آواز کیسی ہے، لب و لہجہ کیسا ہے،تلفظ کیسا ہے اور وہ اس کام کے لئے موزو ں ہیں یا نہیں، یہ سب دیکھنے بھالنے کی زحمت اٹھانا شاید کسی کو منظور نہیں۔بھونڈی آوازیں، اور یوں لگے گویا ریل گاڑی دوڑ رہی ہو۔ پھر آخر میں شکریہ یوں کہا جاتا ہے جیسے ایک فرض ادا کیا جارہا ہو اور ایک ذمہ داری سے جان چھڑائی جارہی ہو۔اب سنئے وہ لمحہ جب لفظ شکریہ کا قتل کیا جاتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ یہ خبر کس شان سے سنائی جاتی ہے کہ آپ کی پرواز لیٹ ہے۔ اس کا اعلان یوں ہوتا ہے: خواتین حضرات، ملتان جانے والی پرواز ایک گھنٹہ تاخیر سے چلے گی، شکریہ۔یا یہ کہ آپ کی پرواز کی روانگی میں تاخیر ہے، شکریہ۔ اُس لمحے یہ گولی کی رفتار سے آنے والا شکریہ تیر کی طرح لگتا ہے سینے پر۔ ذرا سوچئے کہ جہاں کہنا چاہئے تھا کہ ہم شرمندہ ہیں، ہم معذرت خواہ ہیں، ہم معافی چاہتے ہیں، وہاں کہا جاتا ہے۔’شکریہ‘۔اتنے پر خلوص لفظ کا اتنا بھونڈا استعمال۔
ہوائی اڈہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ ذرا گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر نئے نئے مسافروں کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ یہ معاملہ ہر قسم کے سفر کے ساتھ ہے۔ ایسے مسافروںکے ساتھ ہمدردی کے رویے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ جانے والے مسافروں کے لئے ایک کام ضروری ہے جس کا انہیں پہلے سے علم نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں مطلع کرنے کا کوئی نظام ہے۔ وہ یہ کہ ان کے لئے لازم ہے کہ اپنے پاسپورٹ کی ایک فوٹو کاپی ساتھ لے کر آئیں۔ بہت کم لوگ اس پابندی سے واقف ہیں۔ لیکن جب قطار میں کھڑے ہوکر طویل انتظار کے بعد انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ اپنے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی لائیے تو یہ ہدایت ان پر بجلی بن کر گرتی ہے۔ کسی سمجھدار نے وہیں کہیں آس پاس فوٹو کاپی بنانے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ اس کی خدمت میں حاضر ی دے کر یہ فرض بھی انجام دینا ہوتا ہے جس کے بعد کسی سعادت مند کی طرح دوبارہ اسی قطار میں لگنا پڑتا ہے۔شکر ہے کہ اب ائیرپورٹ ٹیکس پہلے ہی لے لیا جاتا ہے ورنہ کچھ عرصے پہلے تک وہیں کاؤنٹرپرنقدی کھری کرنی پڑتی تھی۔
امید واثق ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسافروں کا خوف بھی دور ہو جائے گا اور ہوائی اڈے کے ضابطے بھی ملائم ہوجائیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ لوگ پھر بھی شان دار صوفوں پر یوں لیٹیں گے جیسے صوفے نہ ہوں، ان کے گاؤں کی کھاٹ ہوجس پر لیٹ کر جہاں تہاں کھجانے کی پوری پوری آزادی ہوگی۔

.
تازہ ترین