• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاندان چھوڑیں قلمدان سنبھالیں!
وفاقی وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا، نواز شریف عمران کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ایک اور وزیر مملکت عابد شیر فرماتے ہیں، بلاول کے والد کی بھی پکڑ ہوگی، طلال چوہدری برائے ردِ عمرانیات کہتے ہیں، پی ٹی آئی نے اپنے چاروں الزامات پر بات نہیں کی اور دانیال عزیز جو دانائے راز ہیں ان کا کہنا ہے، عدالت میں پی ٹی آئی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی، وغیرہ وغیرہ۔ بیانات بے شمار ہیں لیکن ہم نے چند مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر پیش کردئیے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ ہم نے کبھی قلمدان سے پاندان تک کی کوئی بات ہی نہیںکی۔ ایک پاندان اور سونادان کے عنوان سے اردو کی لغت میں ایک نئے محاورے کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے، اکثر لوگوں کو یہ کیوں کہتے سنا جاتا ہے کہ کسی محکمے میں کوئی کام ہی نہیں ہوتا، اس لئے کہ محکمے کا وزیر قلمدان چھوڑ پارٹی قیادت کا پاندان اٹھانے کی تاڑ میں رہتا ہے، حالانکہ وزیر اعظم کو آج کہنا پڑگیا، وزراء پیپلزپارٹی کے خلاف نیا محاذ کھولنے سے رک جائیں؎
رک بولنے والے رک جا!
تیرا اصل کام کوئی اور ہے
عابد شیر تو شیر پاکستان کے بھانجے ہیں، ان کو تو پہلے ہلے ہی میں روکا جاسکتا ہے۔ اچھا ہے کہ سعد رفیق اب کچھ تھم گئے ہیں اور ریلویز کی طرف آگئے ہیں، ورنہ وہ بھی (ن) لیگ کے ابوالبیان تھے اور بھگو بھگو کر کوئی چیز مخالفین کو مارتے تھے، وزیر اعظم باقاعدہ ایک حکم جاری کریں کہ کوئی وزیر اپنے محکمے کے علاوہ کچھ کہے گا نہ کرے گا، ٹھیک8بجے اپنی کرسی پر موجود رہنا ہوگا، اور 8گھنٹے ڈیوٹی دے کر چھٹی۔ہمارے ہاں خوشامد گیری، چمچہ گیری بلکہ کفگیری نے اتنا فروغ پالیا ہےکہ جعلی ڈگریاں بھی پیچھے رہ گئیں، محکموں میں اہلکار وزراء کی غیر محکمانہ مصروفیات کے باعث ٹانگ پر ٹانگ رکھے ہاتھ پر ہاتھ دھرے آپس میں گپ شپ کرتے ہیں، اگر کوئی کام سے آئے تو سنی ان سنی کردیتے ہیں۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
ککھ دا وی چور تے لکھ دا وی چور
3فیصد دے کر پراپرٹی کا کالا دھن سفید ہوسکے گا، قومی اسمبلی سے بل منظور۔ بل پاس کرنے والوں ہی کا کیس ہے انہی کا بل ہے ، تو نامنظور کیوں ہوتا، یہ عجب تماشا ہے کہ کیسا ارزاں سودا ہے، یہ3فیصد تو کروڑوں اربوں کی کالے دھن سے حاصل کی گئی جائیداد میں سے کسی ایک پلازے کے ایک ماہ کے کرایوں سے پورا کیا جاسکتا ہے، کیا یہ بل جو منظور نظر تھا کالے دھن کے حصول کو پروموٹ نہیں کرے گا اور کیاپنجابی کی یہ کہاوت 3فیصد ادا کرنے والوں پر فٹ نہیں بیٹھے گی کہ ککھ دا وی چور تے لکھ دا وی چور، یہ اسمبلیاں کیا اشرافیہ کو تحفظ دینے کے لئے بنی ہیں یا عوام کے لئے جن کے ووٹوں سے یہ بل منظور کرانے والے اس حد تک جا پہنچے کہ غریبوں کی کل کمائی میں سے3فیصد ادا کرکے ان سے سب کچھ چھین لینے کا لائسنس حاصل کرلو، ہماری سمجھ میں تو پہلے یہ آیا کہ قومی اسمبلی کے واجب الاحترام ارکان نے یہ3فیصد والا بل پاس کردیا تو بعد میں احساس ہوا کہ یہ تو نرا خسارہ ہے اور سو روپے جو چوری کئے ان میں سے3 روپے واپس کردو باقی اپنے سمجھ کر پاس رکھ لو کوئی کچھ نہیں کہے گا بلکہ معاشرے میں عزت افزائی ہوگی، کسی مسجد کا ایک مینار بنوا دو تو کالا دھن بالکل گوروں کی چمڑی کی طرح سفید ہوجائے گا۔ دودھ سے تشبیہ اس لئے نہیں دے سکتے کہ وہ اللہ کا نور ہے۔ صدقے! کیا ترکیب نکالی ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
تن ہمہ ’’پھوڑ پھوڑا‘‘ شد روئی کجا کجا رکھیں
ایک سرکاری اسپتال کے500درجہ چہارم کے ملازمین افسران کے گھروں پر تعینات۔بس یہ ایک اور پھوڑا پک کر تیار ہے اور پیپ بہہ نکلی، صرف اسپتالوں میں ہی مراسم غلامی نہیں افسر نام کی چیز جہاں ہوگی گھر پر ملازم محکمے سے ہی فراہم ہوں گے۔ کوئی لان میں کام کررہا ہے، کوئی کچن میں تو کوئی بچوں کو اسکول چھوڑنے سرکاری گاڑی گیراج سے نکال رہا ہے اور صاحب کا چپراسی تو ہوتا ہی گھریلو ملازم ہے۔ اس کے علاوہ بھی بعض افسران باقاعدہ درجہ چہارم کے ملازم اپنی ذاتی ملازمت کے لئے بھی بھرتی کرتے ہیں، الغرض تن ہمہ پھوڑا پھوڑا شد روئی کجا کجارکھیں ۔اس ملک میں عظمت ،دولت، بنگلے، گاڑی، بنک بیلنس اور نوکروں چاکروں کی فوج کا نام ہے جس کے پاس یہ غیر مطلوبہ نعمتیں براستہ بٹھنڈا آچکی ہوں لوگ بھی اسی کو بڑا آدمی کہتے ہیں، اہل، قابل، اسکالر، شریف النفس، اپنے کام سے انصاف کرنے والا چھوٹا آدمی کہلاتا ہے اور گلی محلے میں بھی اسے کوئی عزت کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ افسر کی اہلیہ کو بھی کرسی پر بٹھایا جاتا ہے، خلقت نیچے بیٹھی رہتی ہے، پھر بھی بڑھ بڑھ کر اس سے بات کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے بے چین، الغرض یہ ہمارے اجتماعی وجود پر پھوڑے، پھنسیاں، کیل مہاسے کب اور کیسے ختم ہوں گے یا پھر یہ ہوگا کہ؎
مر ہم بھی گئے مرہم نہ ملا
رشوت بھی دی پر ’’کم‘‘ نہ ملا
کام کا الف وزن شعر کے لئے ساقط کردیا ورنہ یہ شعر پورا پورا شیر ہے، چڑیا گھر کا نہیں صرف گھر کا۔ ہم بات کررہے تھے کہ عوام ہی نے افسروں کو سرچڑھا رکھا ہے، آج سے اگر وہ محلے میں رہنے والے افسر کے بجائے صرف گلی کے جاروب کش کو افسرانہ پروٹوکول دینا شروع کردیں تو یہ افسری کا خمار اتر جائے گا۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
دمادم مست قلندر
٭...سعد رفیق،ہم چین سے بلٹ ٹرین کی بات کرتے ہیں تو وہ ہنستے ہیں۔
زندگی تماشا بنی لوکاں داہا سابنی!
٭...وزیر اعظم کی دعوت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کا دورہ کرنے کی ہامی بھرلی۔
کبھی امریکہ نے بھی ہمیں دورے کی دعوت دی، بہرحال اچھا اقدام ہے کیونکہ ہمارے40لاکھ پاکستانی امریکہ میں ہیں۔
٭...پٹرول 2روپے فی لٹر چڑھ گیا۔
یہ اترا کب تھا، یہ تو حکومتی سرکس کا کمال ہے کہ دے کے لے لو، لے کر دے دو،3فیصد ادا کرکے کالا دھن قلعی کرالو، کالے دھن والے ہوشیار باش کہ یہ نادر موقع بھی یوں سمجھیں کہ ان کے ذہن کی اختراع ہے۔
مولا بخش چانڈیو:’’نواز شریف عابد شیر کو لگام ڈالیں، بدزبان وزیر سیاسی اختلاف کو تصادم کی طرف لے جارہا ہے۔‘‘
کوئی بات نہیں شفقت کریں، وزیر ہے، نواز شریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں وزر اء پیپلز پارٹی کے خلاف بول کر میرے لئے نیا محاذ نہ کھولیں۔
٭...جیالے کیک پر ٹوٹ پڑے۔
حالانکہ یہ30برس سے کیک کھاتے آرہے ہیں۔
٭...بلاول، میاں صاحب، مطالبات نہ مانے تو دما دم مست قلندر ہوگا۔سب مل کر تخت رائیونڈ گرادیں گے۔
کیا بلاول نے بھی باہر سے دمادم مست قلندر میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔

.
تازہ ترین