• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ادبی کانفرنس سے واپس آکر وہ تمام درد جو روٹ کنال کے باعث ساتھ لائی تھی، وہ فیصل آباد کی لڑکیوں کی محبت میں ایسا بھولی کہ جب انہوں نے میرے گلے میں ہاتھ ڈالے تو میں نے اپنی زبان بھی کاٹ ڈالی۔ یہ حضرت یوسفؑ اور زلیخا کا قصہ نہیں ہوا، بلکہ ان ساری خواتین کا سلیقہ، تواضع کا انداز اور رکھ رکھائو کے علاوہ فیصل آباد کے طلبا و طالبات کو اس سلیقے سے دعوت دی کہ وہ آٹو گراف لینے بھی کھڑے ہوئے تو قطار بنا کر تہذیب کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے تھے اور آج کا فیشن سیلفی اتارتے جاتے تھے۔فیصل آباد ادبی کانفرنس کا سارا ادبی سیکشن اصغر ندیم سید نے بنایا تھا، ا سٹیج کی آرائش سے لے کر باقی سب اہتمام، فیصل آباد کی خواتین کا وہ گروپ جو پچھلی دفعہ 50تھیں تو اس مرتبہ 88تھیں سب نے پہلے دن بسنتی اور دوسرے دن کالے کپڑوں کے ساتھ خوبصورت اسکارف پہنے ہوئے تھے۔بھولے بسرے کیوں کہا۔ زیبا محمد علی سے ملنا واقعی بھائی محمد علی کے انتقال کے بعد، تازہ تازہ بڑے گریس فل طریقے پر ہوا، اس طرح وہ خاتون جس کا نام تہمینہ درانی ہے، جو کئی برس سے گھر سے ہی نہیں نکلتی یا اُسے نکلنے نہیں دیا جاتا وہ نہ صرف اعتماد کے ساتھ آئی بلکہ ایدھی صاحب کو ایسے لفظوں سے یاد کیا کہ وہ بولتی گئیں اور لوگ سنتے گئے۔ اس طرح زیبانے محمد علی کے ساتھ رفاقتوں اور فلمی دنیا کے سنجیدہ تجربات کو ایسے بیان کیا کہ جیسے سب کچھ زبانی یاد ہو۔ سلیمہ ہاشمی نے سلائیڈز کے ساتھ پاکستان کی آرٹ لائف کے ساتھ ساتھ سیاسی تبدیلیوں اور دہشت گردی کے نفسیاتی اثرات کو ہمارے ملک کے عالمی شہرت یافتہ مصوروں نے کس طرح پیش کیا تھا، سلیمہ کا خوبصورت بیانیہ اور ان پینٹنگز نے ماحول کو بہت سنجیدہ بنا دیا تھا۔ یہی ماحول ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے لیکچر میں بھی جاری رہا، یہ سچ ہے کہ ہم لوگوں نے پڑھنا اور سوچنا بالکل چھوڑ دیا ہے۔فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کےمنتظمین نے طلباو طالبات کے ذوق ادب کو فروغ دینے کے لئے کتابوں کے گفٹ پیک بھی تیار کئے تھے۔ علاوہ ازیں کم قیمت پر کتابیں بھی ا سٹال پر رکھی گئی تھیں۔بچوں کو گفٹ پیکٹ نہ صرف پسند آئے بلکہ ان کتابوں پر متعلقہ ادیبوں سے آٹو گراف بھی لئے۔ ایک بات تو بھول گئی ان نوجوانوں نے سوال جواب کے وقفے میں سوچ سمجھ کر سوال کئے۔ جہاں منو بھائی موجود ہوں وہاں ان کی نظم احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر نہ سنی جائے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ منو بھائی سے رات کو بھی اور صبح کو بھی یہ نظم سنی گئی۔ خالدمسعود نے اُردو، پنجابی اور انگلش ملا کر شاعری کا جو محاورہ بنایا ہے۔ یہ ان ہی کا خاصہ ہے عباس تابش کا ایک شعر تو ہر شہر کے نوجوانوں کو یاد ہے کہ!
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
انجم سلیمی فیصل آباد کے سینئر شاعر ہیں۔ اُردو، پنجابی میں خوب لکھتے ہیں۔ اپنا پبلشنگ ہائوس بھی چلاتے ہیں اور مزے میں ہیں کہ بچے جوان ہو جائیں تو باپ کے کندھوں کا بوجھ اتر جاتا ہے۔
بانو قدسیہ،جنکی 28نومبر کو سالگرہ ہوئی۔ وہ اصغر کے ضد کرنے پر اس عمر میں فیصل آباد بھی آئیں۔
وہیل چیئر پر بیٹھ کر پہلا پورا سیشن سکون کے ساتھ سنا،اب شاید گفتگو کرنے کی عادت نہیں رہی۔ عکسی مفتی کی کتاب کی تقریب پر بھی اور فیصل آباد فیسٹیول پر بھی بس سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ لوگ ان کی آواز سن کر بھی خوش ہوگئے۔فیصل آباد کی منتظمین خواتین کی خواہش تھی کہ موسم بھی اتنا خوبصورت تھا اور نوجوان بھی چاہتے تھے کہ کوئی لوک موسیقی کا جلوہ بھی لگتا تو اور لطف رہتا مگر ہمیشہ ہی انتظامات کو آگے بڑھانے اور بہتر کرنے کی تو ضرورت ہی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پروگرام بھی نصرت فتح علی آڈیٹوریم ہال میں منعقد ہوا ور موسیقی کی گونج نہ سنائی دے۔ لوگ پھر بھی بہت خوش تھے کہ جن کو کبھی دیکھا، سنا نہ تھا ان کو سنا اور دیکھا۔ فیصل آباد ہمارا صنعتی شہر ہے۔ ادب کے فروغ کے لئے اس شہر کے صنعت کار، ہر سال جھولی کھول کر اس تقریب کو کامیاب بناتے ہیں۔ وہ جو آپ لوگ ٹیلی کاسٹ7 ساتھ دیکھتے ہیں وہ بھی فیصل آباد کی پہچان ہے۔ مجھے مہر علی اور شیر علی یاد آئے کہ ان دونوں کی وفات کے بعد ان کی اُولادیں اُسی سُر کو آگے چلا رہی ہیں۔
ممکن ہے نوجوان لکھنے والے اور والیاں بھی فیصل آباد کی مٹی سے بہار کی طرح پھوٹیں ان کو تلاش کرنے میں سارہ حیات، تو شیبہ اور شیبا اس طرح مگن رہیں، اس فیسٹیول کے لئے دن رات کام کیا تھا۔ میں فرزانہ کا نام کیوں بھول رہی ہوں حالانکہ ہر لمحہ وہ میرے ساتھ تھی۔ مگر بہت سوں کے نام محبتیں اور خلوص بھری دعائیں۔ اس شہر کو اور منتظمین کو نظر نہ لگے۔

.
تازہ ترین