• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج میرے پاس کرنے کیلئے چار پانچ تبصرے ہیں۔ ربیع الاول شروع ہوگیا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جب دنیا میں سب جہانوں کے تاجدار حضرت محمدﷺ تشریف لائے۔ نبی پاکؐ کی شان بیان نہیں ہوسکتی، اس شان کو بیان کرنا کسی کے بس میں نہیں، یہ صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیونکہ وہ خود اور اس کے فرشتے ہر دم رسولؐ اور اہلبیت پر درود بھیجتے ہیں، ہمارے لئے یہی ایک راستہ ہے کہ ہم بھی ہر وقت یا کم از کم زیادہ سے زیادہ وقت درود مقدس پڑھا کریں۔ آپؐ کی شان مبارک کی عظمت کی گواہی ہر زمانہ دے گا، وہ قیامت سے قبل بھی افضل ترین ہیں اور قیامت کے بعد بھی وہی عظیم ترین ہوں گے۔ ہمیں خاص طور پر اس ماہ مقدس میں درود پاک کا ورد بڑھا دینا چاہئے تاکہ پتہ چلے کہ امت مسلمہ اپنے نبیؐ کی آمد پر کس قدر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔
دوسرا تبصرہ کمان کی تبدیلی سے متعلق ہے۔ 29 نومبر کو راولپنڈی میں پاک فوج کی کمان تبدیل ہوگئی تھی، مجھے بھی اس تقریب میں جانے کا شرف حاصل ہوا۔ جانے والے جنرل راحیل شریف تھے، جنرل راحیل شریف جاتے جاتے بھی دشمن کو کھر ی کھری سنا گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف کے عہد میں دنیا کا کوئی اور سپہ سالار اتنا مقبول نہیں تھا جتنے جنرل راحیل شریف تھے، کمان کی تبدیلی کی تقریب میں بھی اس کا رنگ نظر آتا رہا۔ لوگ جنرل راحیل شریف کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے۔ کراچی کے مزدور رہنما لطف عمیم شبلی اس راہ محبت میں جان سے چلے گئے۔ غالباً شبلی صاحب کو جنرل راحیل شریف سے محبت نہیں عشق تھا۔ جنرل صاحب نے اپنی ذمہ داریوں کو شاندار انداز میں نبھایا، وہ عید کے دن بھی وردی ہی میں نظر آئے، انہوں نے عید کی نمازیں بھی اگلے مورچوں میں ادا کیں، اب وہ شہدا ٹرسٹ کیلئے خدمات انجام دیں گے، یہ کردار انہیں مزید مقبول بنا دے گا۔
پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں، اتنے دھیمے مزاج کے نہیں جتنا دھیما ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جنرل باجوہ کا بظاہر تعلق گکھڑ منڈی سے ہے مگر ایک بات یاد رکھیئے کہ جہاں کہیں بھی کوئی باجوہ آپ کو ملے اس کا اصل تعلق چونڈہ پسرور ہی سے ہوگا۔ باجوہ آپ کو نیویارک میں ملے یا کیلی فورنیا میں، اس کے اجداد کا تعلق پسرور ہی سے ہوگا۔ گکھڑ منڈی کے یہ باجوے ساٹھ سال پہلے پسرور ہی سے شفٹ ہوئے تھے، ان کا گائوں اچا پہاڑنگ بن باجوہ کے قریب ہے۔ جنرل باجوہ دراز قد ملنسار ہیں۔ ایک زمانے میں وہ بیسٹ ایتھلیٹ ہوا کرتے تھے، کرکٹ میں وکٹ کیپر بیٹسمین کے طور پر رہے، شوق اب بھی ہے۔ پکے مسلمان ہیں بلکہ جب چند شرپسند عناصر ان کے فرقے کے بارے میں افواہیں پھیلا رہے تھے، یقیناً اس میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا شیوہ پاکستان دشمنی ہے۔ پتہ نہیں یہ لوگ کہاں سے افواہوں کا بازار گرم کر دیتے ہیں، تو مجھے خیال آیا کہ جنرل باجوہ فوج میں ایک فرض شناس افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں، یہاں میں ایک تذکرہ کرتا چلوں کہ ان کی نامزدگی سے دو روز پہلے ان کے چچا زاد بھائی وسیم باجوہ میرے پاس آئے، وسیم باجوہ راوین ہیں، کہنے لگے کہ ’’.....جنرل باجوہ فرض شناسی کی نئی مثالیں قائم کریں گے۔جب کمان تبدیل ہو چکی تھی، لوگ جارہے تھے، جاتے جاتے مل رہے تھے جب میں جنرل باجوہ کے سامنے آیا تو انہوں نے ہاتھ ملایا اور جب میں نے انہیں وسیم باجوہ کا بتایا تو انہوں نے میرے دونوں ہاتھ تھام لئے۔
تیسرا تبصرہ پیپلز پارٹی پر ہے اس پارٹی نے نوازشریف کی محبت میں اپنا بڑا نقصان کیا ہے، تیس نومبر کو اس کا یوم تاسیس لاہور کے بلاول ہائوس میں منایا گیا، مجھے میرے پیارے دوستوں نوید چوہدری، ندیم افضل چن، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور چوہدری منور انجم نے دعوت دے رکھی تھی مگر میں بیماری کے باعث اس تقریب میں نہیں جاسکا۔ سنا ہے تقریب اچھی رہی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے مرکزی خطاب میں بڑی بات یہی کہی کہ ’’.....ہمارے وزیراعظم کو ایک خط نہ لکھنے کے باعث گھر بھیج دیا گیا اور اب کرپشن کے سب سے بڑے اسکینڈل پر ادارے خاموش ہیں.....‘‘ اگر بلاول بھٹو کے پیارے وزیراعظم خط لکھ دیتے تو کیا حرج تھا، کرپشن کے معاملے میں کسی کو بھی خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ جس نے کرپشن پر خاموشی اختیار کی، اس نے پاکستان کے ساتھ بددیانتی کی، اس نے اپنے ساتھ بددیانتی کی۔ کرپشن نہیں ہونی چاہئے، کرپٹ افراد کو سزا ملنی چاہئے۔ جس طرف بلاول بھٹو نے اشارہ کیا ہے وہ کیس سپریم کورٹ میں ہے، کرپشن ثابت ہوگئی تو عدالتوں سے انصاف کی توقع ہے۔
مشہور زمانہ پاناما کیس پر کیا تبصرہ کروں کہ یہ مقدمہ اپنے انجام کی طرف بڑھنے لگا ہے۔ البتہ سپریم کورٹ کے باہر سیاستدان جو گفتگو فرماتے ہیں وہ قابل تبصرہ ضرور ہے۔ ہمارے پیارے سیاستدان سپریم کورٹ کے باہر بڑی ’’شائستہ‘‘ گفتگو کرتے ہیں، ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں کہ خواہ مخواہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ داد دینے سے یاد آیا کہ ایک مشاعرے میں مارشل لائی عہد میں ایک جرنیل کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا، جب شاعر مکرر کہہ کر ایک دوسرے کو داد دیں تو تھوڑی دیر بعد جنرل صاحب نے مائیک پکڑ لیا، اپنے اسٹاف افسر سے پوچھا، یہ لوگ مکرر کیوں کہتے ہیں، اس نے کہا سر! اس کا مطلب یہ ہے کہ دوبارہ سنائو۔ جنرل صاحب نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’.....خواتین و حضرات! جس نے بھی سننا ہے،ایک ہی مرتبہ غور سے سنے، یہ مکرر، مکرر کر کے شاعروں کو تکلیف نہ دی جائے.....‘‘
آخری تبصرہ بلال بٹ پر ہے، بلال بٹ مسلم لیگ ن ملتان کا صدر ہے۔ یہ پیارا آدمی ن لیگ کے مشکل دور میں کھڑا رہا، اس نے مسلم لیگ ن کی محبت میں بہت ماریں کھائیں۔ اب اس کے ملتان کے میئر بننے کے چانسز تھے کہ بڑے بڑے ابن الوقت آگئے، انہوں نے بلال بٹ کو آگے نہیں آنے دیا، کارکن اس کے لئے احتجاج کرتے رہے مگر کارکنوں کی کون سنتا ہے۔ بلال بٹ بہت عمدہ سیاسی کارکن ہیں، بڑے محنتی ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے تھا کہ ان کی جماعت مخلص کارکنوں کا خیال ذرا کم ہی کرتی ہے بلکہ مسلم لیگ ن کے مخلص رہنما بھی بے ثمر ہی رہتے ہیں، انہیں جاوید ہاشمی، تہمینہ دولتانہ، سید ظفر علی شاہ، غوث علی شاہ، سر انجام خان اور پیر صابر شاہ کے علاوہ چوہدری جعفر اقبال یا ان کی بیگم محترمہ عشرت اشرف سے پوچھ لینا چاہئے تھا، محسن نقوی یاد آگئے۔
ہم سے مت پوچھ راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے

.
تازہ ترین