• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان میں عسکری کمان کی تبدیلی عمل میں آ چکی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے نئے سپہ سالار کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ جبکہ جنرل راشد محمودکی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پر جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقررکیا گیا ہے۔ یوں اب فوج کے دونوں بڑے اہم عہدوں پر نئی قیادت آ چکی ہے۔ نئے فوجی سپہ سالار قمر جاوید باجوہ انفینٹری سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1980میں بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ10 کور کے کمانڈر رہے اور انہوں نے لائن آف کنٹرول پر نگرانی کی اہم ذمہ داری بھی ادا کی۔ آرمی چیف بننے سے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ریولیویشن کے عہدے پر فائز تھے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات بھی کور کمانڈر بہاولپور کے علاوہ مختلف اہم فوجی عہدو ں پر کام کرتے رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی دونوں ہی فوجی پیشہ ورانہ امور پر وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی فوج کی نئی قیادت بہترین عسکری اور قائدانہ صلاحیتوں کی حامل ہے۔
سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بیرونی دہشتگردی کیخلاف کامیابیوں کے سفر کو جہاں چھوڑا ہے اس کو وہیں سے نئے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ کو شروع کرنا ہو گا۔ کراچی آپریشن، قبائلی علاقوں اور بلوچستان آپریشن میں جہاں کمزوریاں رہ گئی ہیں ان کو بھی نئی فوجی قیادت کو دور کر کے ملک کو ترقی و خوشحالی کی جانب رواں دواں کرنا ہو گا۔ بلاشبہ جنرل راحیل شریف نے پورے اخلاص کے ساتھ ملکی دفاع کو محفوظ بنانے میں اہم کردار اداکیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہم امور پر ان کی توجہ نہیں رہی۔ پاکستانی قوم وزیر اعظم نواز شریف اورسابق آرمی چیف سے توقع کر رہی تھی کہ وہ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ سے رہائی میں اپنا کردار ادا کریں گے لیکن انہوں نے اس اہم قومی مسئلے پر چپ سادھے رکھی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے امریکی سی آئی اے اور پینٹاگون سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ ماضی میں بھی دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کرتی رہی ہیں۔ پاکستان نے ریمنڈ ڈیوس، ایمل کانسی اور یوسف رمزی کو امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کربھی ہم نے اپنا خاصا نقصان کیا۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے برسر اقتدار آنے کے بعد کراچی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ اُن کی بیٹی کو جلد امریکی قید سے رہائی دلوا کر پاکستان واپس لائیں گے۔ اب اس وعدے کو ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف بھی اس دوران اپنی تین سالہ مدت پوری کر چکے ہیں مگر یہ وعدہ ابھی تک ایفا نہیں ہو سکا۔ اب وزیراعظم نواز شریف اور نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پاکستانی قوم امید رکھتی ہے کہ وہ سب سے پہلے پاکستان کی عزت اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی غلامی سے رہائی دلوائیں۔ امریکہ کو ریمنڈ ڈیوس، ایمل کانسی اور یوسف رمزی دیئے جا سکتے ہیں اور ہر طرح کا فوجی تعاون کیا جا سکتا ہے تو پھر آخر کیوں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ سے کیوں نہیں مانگا جا سکتا؟ اس وقت قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو امریکی قید میں 5000دن پورے ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما بھی اب وائٹ ہائوس سے جلد رخصت ہونے والے ہیں۔ شنید ہے کہ وہ اپنی صدارتی مدت ختم ہونے سے پہلے امریکی جیلوں میں قید 300امریکی خواتین کو رہا کرنا چاہتے ہیں جن میں سے 150خواتین کے ناموں کا انہوں نے اعلان کردیا ہے اور باقی 150خواتین کی رہائی کا اعلان انہوں نے15دسمبر سے قبل تک لازمی کرنا ہے کیونکہ امریکہ میں 15دسمبر سے 31دسمبر تک کرسمس کی تقریبات جاری رہتی ہیں۔ اب گیند وزیراعظم نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے امریکی صدر اوباما سے براہ راست بات کریں۔ نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ بھی فوجی سطح پر امریکی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کر کے اس قومی مطالبے کو پورا کرنے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی پاکستان کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت پوری قوم پر قرض بھی ہے اور فرض بھی۔
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو نیشنل ایکشن پلان پر ایک بار پھر تفصیلی غور و خوض کرنا چاہئے۔ نیشنل ایکشن پلان میں کون سے سقم موجود ہیں جن کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے؟ اب تک کراچی آپریشن میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کرتے ہیں مگر پراسیکیوشن کے نظام میں خرابیوں کے باعث سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان نہ صرف چھوٹ جاتے ہیں بلک دندناتے پھر رہے ہیں۔ بلوچستان اور پنجاب میں بھی آپریشن کے راستے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پنجاب، سندھ، کے پی سمیت ملک بھر میں دینی مدارس پر یلغار کر کے ہزاروں بے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے اکثر کچھ نہ ثابت ہونے پر چھوٹ چکے ہیں لیکن ابھی تک سینکڑوں لوگ لاپتہ ہیں جن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ وفاقی حکومت کو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں معصوم اور بے گناہ افراد کی پکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ بند کرنا چاہئے۔ ایسے اقدمات حکومت کی بدنامی کا باعث بن ر ہے ہیں۔ ابھی چند روز قبل پنجاب یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد گوندل کو بھی جرم بے گناہی میں اٹھا لیا گیا تھا وہ پندرہ روز بعد اپنے پیاروں کے پاس واپس پہنچ سکے۔ یہ ملکی آئین اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ مہذب معاشرے ہمیشہ استاد کا احترام کرتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اساتذہ کرام بھی اب محفوظ نہیں رہے۔ قومی ایکشن پلان ملک سے بیرونی دہشتگردی کے خاتمے کے لئے بنایا گیا تھا، یہ اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ معاشرے کے شرفا اور قابل احترام لوگوں کو دن دیہاڑے غائب کردیا جائے۔ یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔ اسی وجہ سے عوام کا قانون اور ریاستی اداروں پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن کے سربراہ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور پاکستان مخالف نعرےلگائے مگر آج بھی شہر کراچی میں الطاف حسین کا لندن گروپ سرگرم عمل ہے اور آزادی کے ساتھ اپنے پروگرام کر رہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی کے عہدیداران بھی الطاف حسین کے ساتھ ماضی میں شریک جرم رہے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اسی دہرے طرز عمل نے کراچی آپریشن کے بارےمیں شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ یہ کیسا نظام انصاف ہے کہ یہاں قاتل، بھتہ خور اور جرائم پیشہ افراد کھلے عام پھر رہے ہیں لیکن دوسری طرف اساتذہ، ڈاکٹرز اور معاشرے دیگر طبقات سے بے گناہ افراد کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کر کے کئی کئی روز تک غائب رکھا جاتا ہے اور انہیں عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جاتا۔ اگر ہم نے قومی ایکشن پلان کو کامیاب کرنا ہے تو اس کے بارے میں دینی وسیاسی جماعتوں کے تحفظات کو فی الفور دور کرنا پڑے گا۔

.
تازہ ترین