• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈی ٹی ایچ کی نیلامی کے عمل کی عالمی سطح پر مثال نہیں ملتی

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف نے ڈی ٹی ایچ کی نئی اربوں روپے کی نیلامی کے مقابلے میں براڈکاسٹرز کی جانب سے ہر سال پیمرا کو کی جانے والی کم ادائیگیوں پر تنقید کی ہے حالانکہ دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ خواجہ آصف کو ڈی ٹی ایچ کی نیلامی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کن تبصرہ بھی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہے۔ سپریم کورٹ نے پیمرا کو اجازت دی کہ وہ 23؍ نومبر کو ڈی ٹی ایچ کی نیلامی کی اجازت دی کیونکہ تاریخ اور مقام کا تعین پہلے ہی کیا جا چکا تھا جس کے متعلق پیمرا نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل بھی دائر کر رکھی تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بولی میں حصہ لینے والوں کا کوئی مفاد یا حق وابستہ ہوگا اور نہ ہی کوئی ایوارڈ یا ٹھیکہ دیا جائے گا تاوقتیکہ لاہور ہائی کورٹ اپنا فیصلہ نہ سنا دے۔ (اس فیصلے کی نقل کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے)۔ جیو ٹی وی نے ڈی ٹی ایچ کی نیلامی کے حوالے سے پیمرا کے ان قواعد کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے جن کے تحت براڈکاسٹرز کو اس عمل سے باہر رکھا گیا اور 2015ء کے نیلامی کے رائونڈ میں اہل قرار دی گئی کمپنیوں کو ہی نیلامی میں شامل کیا گیا حالانکہ ان کمپنیوں کے پاس میڈیا کا کوئی تجربہ نہیں۔ اس کے ساتھ غیر ملکیوں کو انتظامی کنٹرول دینے کیلئے استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔  پاکستان میں ڈی ٹی ایچ نظام کا ٹی وی چینلوں اور نیٹ ورکس کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ڈی ٹی ایچ سسٹم میں ایک ہزار چینلز آ سکتے ہیں اور ٹی وی نیٹ ورکس اور چینلز کے مقابلے میں اس میں آمدنی کے کئی ذرائع شامل ہیں۔ ڈی ٹی ایچ نظام میں اپنے طور پر ہی (in-house) سیکڑوں ٹی وی چینلز شروع کیے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا پیمرا کو انفرادی چینلز کی جانب سے دیئے جانے والے چند کروڑ روپوں کا کہیں زیادہ بڑے ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارم کے ساتھ موازنہ کرنا درست نہیں۔ اس کے علاوہ، 23؍ نومبر کو پیمرا کی نیلامی میں شامل ہونے والی کچھ غیر میڈیا کمپنیوں کی جانب سے 5؍ ارب روپے فی لائسنس کی بولی کو ماہرین نے بہت زیادہ اور غیر حقیقی قرار دیا ہے۔ سب سے زیادہ لگائی جانے والی بولی ڈی ٹی ایچ پروجیکٹ کے سیٹ اپ کے تخمینے سے بھی بہت زیادہ ہے اور پیمرا کی جانب سے طے کی جانے والی بنیادی قیمت (بیس پرائس) 20؍ کروڑ روپے کا 2000؍ فیصد ہے۔ پیمرا نے خود اپنے ہی ڈی ٹی ایچ کیلئے بنائے گئے قواعد و ضوابط کی شق نمبر 3.8 کو نظرانداز کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ بولی کیلئے اہل کمپنی کو براڈکاسٹ صنعت کا تجربہ ہونا چاہئے۔ پیمرا نے ایسی کمپنیوں کو بولی میں شرکت کی اجازت دی جن کے پاس میڈیا انڈسٹری کا کوئی تجربہ ہی نہیں۔ میڈیا کے شعبے سے تعلق نہ رکھنے والی ان ہی کمپنیوں نے ایسی غیر معمولی (ایبنارمل) بولی لگائی ہے جس کا پورے ایشیا میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مشکل اور سیٹلائٹ اور ملک بھر میں ڈسٹری بیوشن کے سخت ترین آپریشنز کی وجہ سے دنیا بھر میں صرف 100؍ ڈی ٹی ایچ پروجیکٹس کام کر رہے ہیں۔ قومی سیاست اور معیشت پر اثرات کی وجہ سے ضابطہ کار اداروں (ریگولیٹرز) کو ڈی ٹی ایچ پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں اور کمپنیوں سے محتاط رہنا پڑتا ہے۔ اس طرح کے پروجیکٹس صرف ایسی موزوں کمپنیوں کو ہی دیئے جاتے ہیں جن کے پاس فنڈز کے صاف ذرائع ہوں اور جن کا بنیادی کاروبار میڈیا اور کمیونیکیشن کے شعبے سے وابستہ ہو تاکہ 10؍ سے 15؍ سال تک مناسب نرخوں پر معیاری سروس کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ بھارت میں تمام کے تمام 6؍ ڈی ٹی ایچ لائسنس 10؍ کروڑ روپے کی طے شدہ فیس کے عوض مرکزی دھارے میں شامل میڈیا اور کمیونیکیشن اداروں کو ہی جاری کیے گئے ہیں۔ ڈی ٹی ایچ کیلئے سب سے زیادہ بولی لگانے والوں میں سے ایک کمپنی کا مجموعی خسارہ 8؍ کروڑ روپے سے زیادہ ہے جبکہ ایک کمپنی چند ماہ قبل ہی رجسٹر ہوئی ہے۔ زیادہ بولی لگانے والی کمپنیوں میں سے ایک کا تعلق کرنسی ایکسچینج کے کاروبار سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق تیل کی تلاش کے کاروبار سے ہے۔ تیسری کمپنی کا ایک مقامی پارٹنر بھی پٹرولیم سیکٹر سے تعلق رکھتا ہے جبکہ اس کا غیر ملکی پارٹنر کے پاس کمپنی کا انتظامی کنٹرول ہے۔ یہ بات پیمرا کے اپنے ہی آرڈیننس کی شق 25؍ کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا، خواجہ آصف کو چاہئے تھا کہ ڈی ٹی ایچ کی نیلامی پر اپنی رائے پیش کرنے سے پہلے میڈیا کے ماہرین سے مشورہ لے لیتے، خصوصاً اس وقت جب پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن نے ستمبر 2016ء میں پیمرا چیئرمین کو خط لکھ کر اور 22؍ نومبر 2016ء کو تمام اخبارات میں اشتہار کے ذریعے نیلامی کے اُس عمل کو مسترد کر چکی ہے جس میں براڈکاسٹرز کو نیلامی کے عمل میں شامل ہونے نہیں دیا گیا۔ اس دوران، کیبل آپریٹرز اپنی کامیابی پر خوشیاں منا رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پروجیکٹ کامیاب نہیں ہوگا اور اپنی موت آپ مر جائے گا۔ خواجہ صاحب کو یہ اس بات کا احساس بھی ہونا چاہئے کہ براڈکاسٹرز حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ پیمرا کے اُن قوانین کو ختم کرے جن کے تحت میڈیا گروپس کو صرف 4؍ چینلز کے لائسنس کی اجازت ہے اور ان پر ٹی وی ڈسٹری بیوشن میں شمولیت پر پابندی۔ اگر یہ پابندیاں ختم ہوجائیں تو ٹی وی نیٹ ورکس قومی خزانے میں زیادہ سے زیادہ رقم جمع کرا سکیں گے۔ ٹوئیٹر اور ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر میڈیا انڈسٹری پر تنقید کی بجائے خواجہ صاحب کو چاہئے کہ وہ فیصلہ سازوں سے کہیں کہ وہ براڈکاسٹرز پر عائد وہ پابندیاں ختم کریں جو ماضی کے طاقتور حکمرانوں کی عائد کردہ ہیں۔ مسٹر خواجہ آصف کو یہ بات بھی سمجھنا چاہئے کہ ٹی وی ڈسٹری بیوشن کی آمدنی بین الاقوامی براڈکاسٹ انڈسٹری کی آمدنی کا آدھے سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں میڈیا گروپس کے ٹی وی چینلوں کی تعداد کو محدود کر کے اور ٹی وی ڈسٹری بیوشن کو مکمل بند کرکے مسٹر خواجہ آصف کس طرح امید کرتے ہیں کہ پاکستانی براڈکاسٹرز قومی خزانے میں زیادہ سے زیادہ رقم جمع کرائیں گے۔ خواجہ صاحب کو پتہ ہونا چاہئے پاکستان میڈیا انڈسٹری کی آمدنی پیمرا کی پابندیوں کی وجہ سے تقریباً ایک ارب ڈالرز  تک محدود ہے۔ بھارت میں آزاد میڈیا پالیسی ہے اور میڈیا کمپنیوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ بیک وقت اخبارات، ٹی وی، کیبل ٹی وی یا پھر ڈی ٹی ایچ لائسنس نہ رکھیں۔ بھارت میں ایک میڈیا ہائوس کے کئی اخبارات، آن لائن پورٹل، 25؍ ملین صارفین پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارم اور دس ملین صارفین پر مشتمل کیبل ٹی وی نیٹ ورک ہے۔ جس کے باعث بھارتی میڈیا انڈسٹری کی سالانہ آمدنی 25؍ ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت اپنے میڈیا کے شعبے میں عمودی ادغام (ورٹیکل انٹیگریشن) کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یعنی براڈکاسٹرز کی جانب سے ٹی وی ڈسٹری بیوشن کی ملکیت اور بالمعکوس تاکہ انسانی وسائل اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا ہونے والی معیشت سے زیادہ سے ز یادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور موجودہ حکومتیں Pay TV کا نظام متعارف نہیں کرا سکیں اور براڈکاسٹرز کو کیبل آپریٹرز سے کسی طرح کی ڈسٹری بیوشن فیس نہیں ملتی جس کی وجہ سے ملکی میڈیا انڈسٹری کی افزائش کو زبردست نقصان ہوا ہے۔ خواجہ صاحب کو چاہئے تھا کہ پاکستان براڈکاسٹ انڈسٹری کی حالت اور ان سے جڑے قوانین اور قواعد پر تبصرے کرنے سے قبل وہ پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیتے۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ پیمرا سے سوال کرتے کہ کیا یہ درست ہے کہ 2004ء کی نیلامی میں شامل ہونے والے دو براڈکاسٹرز سے لائسنس فیس کی مد میں 20؍ کروڑ روپے وصول کرنے کے بعد ان کے ڈی ٹی ایچ لائسنس منسوخ کردیئے جائیں۔ یہ لائسنس پیمرا کی جانب سے نیلامی کی منظوری 100؍ دن میں دینے کا فیصلہ دو سال میں کرنے کے بعد منسوخ کیے گئے تھے اور اس کے بعد پیمرا نے کنٹریکٹ پر دستخط کرکے اجراء کرنے سے انکار کردیا۔ 2003ء سے 2009ء تک تقریباً 6؍ سال تک 20؍ کروڑ روپے دبائے رکھنے کے بعد پیمرا نے لائسنس منسوخ کر دیئے اور اب بھی 20؍ کروڑ روپے دبا رکھے ہیں۔ پیمرا اس عرصہ کے دوران پی ٹی وی کو بنا لائسنس چار ڈی ٹی ایچ ٹینڈرز جاری کرنے سے بھی نہ روک سکا۔ نگران ادارے کی جانب سے کی جانے والی اس ناانصافی کی مثال کسی اور انڈسٹری میں ملتی ہے کہ کامیاب بولی دہندگان کو مارکیٹ کے تاریخی مواقع سے اُس وقت محروم کر دیا جائے جب پورے جنوبی ایشیا میں کہیں ڈی ٹی ایچ تھا ہی نہیں۔ کیا خواجہ آصف یا مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس نا انصافی کیخلاف سپریم کورٹ میں ساتھ دیں گے؟ کیا یہ مشورہ درست نہیں کہ پہلے پرانا معاملہ نمٹایا جائے اور اس کے بعد ہی ڈی ٹی ایچ کیلئے نئی نیلامی کا انعقاد کیا جائے؟ ماضی کے طاقتور حکمرانوں کے دبائو کی وجہ سے پیمرا پاکستان کیبل نیٹ ورکس کو ڈیجیٹل بنانے کا فیصلہ نہیں کر پایا اور اگر ایسا ہوتا تو اس سے چینلز کی تعداد بڑھ جاتی اور صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا۔ نیٹ ورکس کو ڈیجیٹل بنانے سے ماضی کے طاقتور حکمرانوں کیلئے ٹی وی چینلوں کو بوقت ضرورت بلاک کرنا ناممکن ہوجاتا۔ پاکستان براڈ کاسٹ انڈسٹری کو فروغ نہ دینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ مسٹر خواجہ آصف خود بھی ماضی کی آمریت کے سخت نقاد رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں ان کی جانب سے پاکستان میڈیا انڈسٹری پر تنقید کرنا براڈ کاسٹ میڈیا کیخلاف طاقتور حکمرانوں کی جانب سے بنائے گئے کالے قوانین کی حمایت اور براڈ کاسٹ گروپس کی جانب سے کامیاب بولی کے ذریعے حاصل کیے جانے والے لائسنس کے معاملے کو خراب کرنا ہے۔ خواجہ آصف تجربہ کار سیاست دان ہیں اور ان کے پاس زبردست ٹیکنوکریٹ مہارت بھی ہے انہیں یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے تھی کہ پاکستانی ٹی وی چینلوں نے دہشت گردی کیخلاف جنگ، پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، عدلیہ کی آزادی کی تحریک اور دیگر قومی مقاصد کیلئے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ تمام میڈیا گروپس کو چور لٹیرے قرار دینا خواجہ صاحب جیسے قد کے سیاست دان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ایک اور پہلو، جسے خواجہ صاحب کو ذہن میں رکھنا چاہئے تھا، یہ ہے کہ خالصتاً پیسے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو میڈیا انڈسٹری کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ بین الاقوامی میڈیا ریگولیٹرز بار بار اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ میڈیا کے نگران ادارے (ریگولیٹر) کا کام زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معلومات، تفریح اور تعلیم زیادہ سے زیادہ قارئین اور ناظرین تک باآسانی پہنچے۔ حیرانی نہیں کہ پاکستانی میڈیا نے سیاسی شعور اجاگر کرنے کیلئے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے 2013ء کے عام انتخابات کا ٹرن آئوٹ زیادہ سے زیادہ یعنی 55؍ فیصد رہا اور مسلم لیگ (ن) کو حکمرانی ملی۔ ماہرین اور مبصرین سمجھتے ہیں کہ خواجہ آصف جیسے سینئر سیاست دانوں کو پیمرا کے کالے قوانین کے خاتمے کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو زیادہ بہتر انداز میں اپنا کردار ادا کرنے میں مدد ملے۔ خواجہ آصف جیسے سینئر سیاستدان سے امید نہیں تھی کہ وہ حقائق جانے بغیر میڈیا انڈسٹری پر بلا جواز تنقید کریں گے اور اس کا مذاق اڑائیں گے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس مشیر عالم کے آرڈر کا ترجمہ یہ ہے: ’’دونوں فریقوں نے اپنی اپنی گزارشات پیش کی ہیں۔ زیر اعتراض آرڈر کی فوٹوکاپی عدالت میں ہمارے روبرو پیش کی گئی ہے۔ دونوں فریقوں کے فاضل وکلاء کے دلائل سننے کے بعد، یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ نیلامی کا عمل، جو آج کے دن منعقد ہونا ہے، پہلے سے طے شدہ مقام اور تاریخ پر کرایا جا سکتا ہے۔ لیکن، یہ واضح کیا جاتا ہے کہ درخواست گزار کی جانب سے نیلامی کا حتمی ایوارڈ یا کنٹریکٹ نہیں دیا جائے گا۔ مزید برآں، نیلامی کے عمل میں شامل ہونے والے بولی دہندگان کی جانب سے کسی طرح کا کوئی دعویٰ دائر کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی مفاد قائم کیا جائے گا۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس معاملے کو سلجھانے میں مصروف فاضل ہائی کورٹ جلد از جلد اسے نمٹائے گی۔ اس فیصلے کی تعمیل ہائی کورٹ کے فاضل بینچ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔ ’’
تازہ ترین