• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف سے گفتگو، ٹرمپ کے بیانات پہلے درست یا اب ، لوگ پریشان

نیویارک (تجزیہ  / عظیم ایم میاں)نواز شریف، ڈونلڈ ٹرمپ ٹیلی فونک گفتگو پر مبنی خبر کو پاکستان کے قومی میڈیا اور امریکی میڈیا نے نہ صرف نمایاں طور پرنشر اورشائع کیا ہے بلکہ تمام ہی میڈیا نے اس خبر کی بنیاد پاکستان کے سرکاری پریس ریلیز کو بنایا ہے اور براہ راست نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے الفاظ پریس ریلیز میں شامل (Quote) کئے ہیں۔ ابھی تک نو منتخب امریکی صدر کے کسی ترجمان نے نہ توگفتگو کے ان جملوں کی تصدیق یا تردید کی ہے جو ڈونالڈ ٹرمپ کے نام سے اس پریس ریلیز میں منسوب کئے گئے ہیں اور نہ ہی کوئی وضاحتی بیان سامنے آیا ہے البتہ ٹرمپ کے وزیراعظم نوازشریف سے کہے گئے یہ جملے ڈونالڈ ٹرمپ کے ان تمام بیانات سے متضاد ہیں جو بطور صدارتی امیدوار ٹرمپ نے امریکی ووٹروں کےسامنے اپنا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں کہےتھے۔ پورے امریکی میڈیا کو حیرت ہے کہ آخر پاکستان کے باے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات اور ایجنڈے میں اچانک یہ تبدیلی کیسے اور کیوں آگئی؟ پریس ریلیز میں ڈونالڈ ٹرمپ سے جو جملے منسوب کئے گئے ہیں وہ درست ہیں یا ٹرمپ کے وہ بیانات درست ہیں جو انہوں نے پاکستان کے بارے میں کہے اور بھارت، امریکا تعلقات کے بارے میں کہے ہیں۔ اس صورتحال پر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں اس کا واحد پاکستانی، امریکن نمایاں حامی ساجد تارڑ بھی پریشان ہے۔ جتنے جوش و خروش سے وزیراعظم نواز شریف اور ڈونالڈ ٹرمپ کی ٹیلی فونک گفتگو پر مشتمل پریس ریلیز پر زیادہ غصہ اور ردعمل ڈونالڈ ٹرمپ کے معاونین میں پایا جارہاہے۔ سوال اٹھایا جارہاہے کہ آخر انتخابی کامیابی کی رسمی مبارکباد کیلئے ایک ٹیلی فونک گفتگو کا اس انداز میں پرچار کی ضرورت کیا تھی۔ اسے ایک رسمی مبارکباد کی گفتگو کے طور پر اسی طرح رکھنا چاہئے تھا جس طرح نریندر مودی اور دیگر غیر ملکی سربراہوں کی مبارکباد کو رکھا گیا۔ اگر پاکستانی حلقے اس گفتگو کو اس قدر ضروری اور اہم سمجھ رہے تھے تو اس بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کیمپ سے صلاح مشورہ اور تفصیلات طے کرکے دو طرفہ گفتگو کو دوطرفہ مرضی کے ساتھ ریلیز کئے جاتے۔ اس حو الے سے امریکی میڈیا میں جو بحث چھڑگئی ہے وہ نہ تو ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے مفید ہے اور نہ ہی پاکستانی پریس ریلیز جاری کرنے والوں کیلئے کوئی اچھی خبر ہے۔ بھارتی اور پاکستان مخالف لابی اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے لیکن اس نقصان اور ’’بیک فائر‘‘ کی بنیادی ذمہ داری تو پریس ریلیز جاری کرنے والوں پر یوں ہے کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے کوئی پالیسی بریفنگ اور مشورہ لئے بغیر پاکستانی وزیراعظم کی مبارکباد کیلئے فون کال لے لی تھی اور کوئی اچھے جملے (ابھی ان جملوں کی ٹرمپ کیمپ سے تصدیق یا تردید باقی ہے)کہہ بھی دیئے تھے تو اس کو گفتگو کے دوسرے فریق سے مشورہ کے بغیر ہی یکطرفہ شادیانے بجاتے ہوئے ان تفصیلات کے ساتھ پریس ریلیز جاری کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کے مذکورہ مشیران و معاونین نے ایسا کرکے نہ تو وزیراعظم کی کوئی خدمت کی ہے نہ ہی پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچایا ہے بلکہ الٹا ’’بیک فائر‘‘ ہوگیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں انتخابی منفی بیانات اور ٹیلی فون گفتگو کے ٹرمپ سے منسوب گرم جوشی کے جملوں کا مو ازنہ کرکے ٹرمپ کی تضاد بیانی پر تنقید ہورہی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ سے بریفنگ اور مشورے نہ کرنے پرہدف تنقید بنایا جارہاہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر عباس جیلانی کو صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔ جن دوستوں نے وزیراعظم نواز شریف کی فون کال کیلئے ٹرمپ کیمپ میں کوششیں کی تھیں وہ بھی خوشی کی بجائے ایک عجیب ندامت اور سوالات کا سامنا کررہے ہیں۔ اس پریس ریلیز کے باعث آئندہ کیلئے ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے معاونین پاکستان سے رابطوں میں محتاط ہونے کی آخری حدود تک جائیں گے۔ نئے امریکی صدر کے قریبی حلقوں میں پہلےہی بھارتی حلقوں کا بڑا اثر ہے۔ ٹرمپ ٹاور اور دیگر اثاثے مفادات بھارت میں ہیں پاکستان میں نہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کو چاہئے کہ اپنے ایسے معاونین و مشیران کی سرزنش کریں جو سفارتی روایات اور تقاضوں، پاک امریکا تعلقات، ٹرمپ کے حالیہ بیانات اور دیگر تقاضوں کو نظرانداز کرکے محض اپنے نمبر بڑھانے کیلئے ایسا پریس ریلیز جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں جس نے عالمی سطح پر نہ صرف منفی تاثر پیدا کیا ہے بلکہ وزیراعظم اور ڈونالڈ ٹرمپ دونوں کیلئے پاکستان اور امریکا میں خوشگوار کی بجائے ایک ناخوشگوار صورتحال پیدا کی ہے۔
تازہ ترین