• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز میں خامیوں کا انکشاف، دفاع کیلئے میزائل نظام نہیں

کراچی(رفیق مانگٹ) بھارت کے پہلے طیارہ بردار بیڑے نے امریکی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ امریکی اخبار’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے بھارت کے تیار کردہ پہلے جنگی بحری بیڑے کی خامیوں کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا کہ بیڑے میں اپنے دفاع کے لیے  کوئی میزائل نظام نہیں،  اس بیڑے سے جنگی طیاروں  کے اڑنے اور اترنے کی صلاحیت محدودہے، طیارہ بردار جہاز کو جنگ میں کیسے استعمال کیا جائے گا اس کی کوئی حکمت عملی نہیں بتائی گئی، امریکی حکام اس صورت حال کو دیکھ کر پریشان ہیں جو بھارت کو چین کے خلاف ایک مضبوط دفاعی دیوار سمجھ بیٹھے تھے۔  اخبار لکھتا ہے کہ اعلیٰ امریکی بحریہ کے انجینئرز نے حال ہی میں بھارت کے مقامی طیارہ بردار جہاز کا معائنہ کیا جو یہ توقع لیے بیٹھے تھے کہ بحر ہند میں چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کا مقابلہ کرنے کےلئے یہ بیڑہ مدداورجنگ کے لئے تیار ہے تاہم معائنے کے بعد انہیں دھچکا لگا کہ ایک دہائی کے بعد بھی یہ بیڑہ آپریشنل نہیں ہوا اور اس میں کئی طرح کی خامیاں ہیں۔ بھارتی سرکاری آڈٹ نے بھی  یہ انکشاف کیا تھا کہ مقامی طیارہ بردار جہاز’آئی این ایس وکرانت ‘توقعات پر پورا نہیں اترا،رپورٹ میں ڈیزائن اور اس کی تیاری میں سنگین غلطیوں کا انکشاف کیا گیا اور کہا کہ اس  کےگیئر باکسز سے جیٹ لانچنگ سسٹم اور ائر کنڈیشنگ یونٹس تک خرابیاں ہیں جو شپ یارڈ کوچی اس طیارہ بردار کو تیار کر رہا ہے، اس نے تین ارب ڈالر پہلے ہی خرچ کردیئے ہیں ،اس شپ یارڈ کو جنگی بیڑےکی تیاری کا کوئی ​​تجربہ نہیں تھااور بحری بیڑے کی تیاری کی مقررہ مدت میں پہلے ہی پانچ سال تاخیرہے، آڈٹ میںکہا گیا بھارت کی فوج نے اس کی تیار ی کےلئے 2018 آخری تاریخ دے رکھی ہے۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل نیوی بیڑے سے ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرتی ، جہاز کا پتوار تیار کرلیاگیا۔ بھارت کے اپنے تیار کردہ جنگی طیارے’ تیجاس‘ بھی روسی جیٹ طیاروں کے سکواڈرن کے ساتھ وکرانت سے پرواز کرنے کی امید لگائے بیٹھے تھے، تاہم آزمائشی پروازوں میں انہیں مشکلات پیش آئی ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے طیارہ بردار جہاز کی دفاعی خامیوں کے بعد یہ بیڑہ بھارتی فضائی حدوو کے باہر خلیج فارس یا افریقہ کے مشرقی ساحل پر کام کرنے کے قابل نہیں ہے۔بھارت کے ساتھ فوجی تعاون کا بنیادی جز و طیارہ بردار بحری جہاز ہیں۔ نئی دہلی میں سابق امریکی مشیرایشلے ٹیلس کا کہنا ہے کہ بھارت کی فوج کے ساتھ امریکی تعاون میں طیارہ بردار جہاز اہم منصوبہ ہے جو بڑی ممکنہ ادائیگی کے ساتھ علاقائی توازن میںسب سے بڑا فرق ہے۔لیکن بھارت کی فوجی حکمت عملی کے بارے میںامریکی خدشات بڑھ رہے ہیں،ماہرین فکر مند ہیں کہ نئی دہلی اپنے ملٹری کمپلیکس کو  بنیاد سے تیار کرنے پر بضد ہے جو اس کے کیریئرز، لڑاکا طیاروں اور ایٹمی آبدوزوں کو جدید بنانے میں شدید تاخیر کی وجہ بن رہی ہے اور جنگی صلاحیت کو محدود کر رہی ہے۔بھارتی وزارت دفاع کے ترجمان نے طیارہ بردار بحری جہاز پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس پر ابھی پیش رفت جاری ہے۔ بحریہ کے ترجمان نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پریکر نے حال ہی میں ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ جنگ کی صورت میں اسلحہ اور گولہ بارود کی غیر ملکی سپلائی ختم ہو سکتی ہے۔ امریکابھارت کے ساتھ طیارہ بردار ٹیکنالوجی شیئر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اسی لئےرواں برس فروری میں امریکی حکام نے کوچی کی بندرگاہ میں قائم شپ یارڈ پر طیارہ بردار جہازکا معائنہ کیا، بھارتی بحریہ کے حکام نے ستمبر میں ورجینیا میں شپ یارڈ کے دورے کے ساتھ پینٹاگون میں اسٹریٹجی بریفنگز میں شرکت کی ۔ پھر بھی امریکی بحریہ تعاون میں اضافے کے وعدے پر قائم ہے اور اس نے دوسرے بیڑے سے امیدیں لگا دیں ہیں جو اس سے بڑااورزیادہ جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ہو گا۔بھارت کی بحریہ کے سابق کمانڈر ریٹائرڈ ایڈمرل ارون پرکاش نے کہا کہ چین کی بحریہ جلد ہی دنیا میں سب سے بڑی ہو گی اور یقینی طور پراس کی سری لنکا اور بنگلہ دیش میںبندرگاہوں کی منصوبہ بندی کے ساتھ بحر ہند پر نظر ہے،بھارتی بحریہ اس بارے میں فکر مند ہے۔امریکہ اور بھارت کی سیاسی اور فوجی سطح پرقربتیں بڑھ رہی ہیں۔ جاپان کے ساتھ دونوں ممالک مشترکہ بحری مشقوں میں حصہ لیا ہے، امریکا نے نئی دہلی کو ہیلی کاپٹر زسے آرٹلری تک سب کچھ فروخت کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ واشنگٹن نے بھارت میں اعلیٰ درجے کے جنگی جہازوں کی تیاری کے لئے لاک ہیڈ مارٹن اور بوئنگ کمپنی کی طرف سے تجاویز کی منظوری دی اور اگست میں دونوں ممالک نے ایک ملٹری لاجسٹک کے اشتراک کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ دونوں ممالک میں بڑھتی قربتوں نے ایشیا کے جیوپولیٹکل منظر کو نئی شکل دے دی ہے اس صورت حال سے چین خفا ہے جس نے مشترکا مشقوں پر سفارتی سطح پر مسئلے کو اٹھایا ہے۔ بھارت اور امریکا کی اس قربت سے روس بھی ایک طرف ہو گیا ہے جو بھارت کوزیادہ اسلحہ فراہم کرتا تھا۔ بھارتی اور امریکی حکام دونوں پر امید ہے کہ نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں تعاون میں مزید اضافہ ہوگا جنہوں نے چین کے متعلق سخت نقطہ نظر کا اشارہ دیا ہے۔ امریکی انتخابات کے بعد بھارت میںامریکی سفیر نے کہا تھا کہ صدر براک اوباما کے دور میں بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رہیں گے۔چین تیزی سے فوجی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے،اس نے 2012 میں اپنے پہلے طیارہ بردار آغاز کیا اور دو مزید تیارکر رہا ہے۔ چینی سرکاری کمپنیاں بحر ہند کے پانیوں میں رہنے کےلئےسری لنکا، میانمار اور پاکستان میں اسٹریٹجک بندرگاہوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں،اور چین اب بیرونی دنیا میںجبوتی کے مقام پر اپنی پہلی فوجی چوکی بنا رہا ہے۔چینی حکام بحر ہند میں فوجی مقاصد کے دعویٰ کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ سری لنکا میں آبدوزوں کی آمدورفت خلیج عدن میں بحری قذاقی کے مشن پر ہیں۔بھارت ایران میں ایک نئی بندرگاہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔کیریئرز سستے انٹی شپ میزائل اور اعلی درجے کی آبدوزوں کے حملوں کے پھیلاؤ سے جنگی بیڑے اپنی اہمیت کھورہے ہیں، تاہم کچھ دہائیوں تک بیڑے اہم ممالک کی بحریہ کے مرکز ی حصہ رہنے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے اپنے پہلے بحری جہاز کا افتتاح 2013میں کیا تھا، این ایس وکرانت نامی اس طیارہ بردار بحری جہاز کا افتتاح کوچی کی بندر گاہ پر کیا گیا، 40ہزار ٹن وزنی اس بحری جہاز کی تیاری پر 5 بلین امریکی ڈالرز کی لاگت آئے گی، کہا گیا تھا کہ این ایس وکرانت 2018میں مکمل طور پر کام شروع کر دےگا۔  بھارت سے پہلے برطانیہ، فرانس، روس اور امریکا ان ممالک میں شامل ہیں، جن کے پاس طیارہ بردار بیڑے موجود ہیں۔
تازہ ترین