• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گردشی قرضے کی ادائیگی کی چھان بین، سینیٹ کمیٹی نےذیلی کمیٹی بنادی

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے 480ارب روپے کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے معاملے پر ذیلی کمیٹی قائم کردی، محسن عزیز کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی میں کامل علی آغا اور مشاہداللہ خان شامل ہیں ، کمیٹی 480ارب روپے کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے معاملے کی مکمل چھان بین کریگی اور دوماہ میں مرکزی کمیٹی کو رپورٹ پیش کرے گی،قائمہ کمیٹی نے کورین کمپنی سے رشوت مانگنے والے ایف بی آر کے اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی ہدایت کردی،علاوہ ازیں کمیٹی نےکنسولیڈیٹڈ فنڈ کیلئے کوئی ایکٹ نہ ہونے پر تشویش کا اظہارکیا، قائمہ کمیٹی خزانہ کاا جلاس چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں سرکاری اکائونٹ میں آنے والے سرمائے ( کنسولی ڈیٹڈ فنڈز) اور اس کے اخراجات کے بارے میں کوئی قانون نہ ہونے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا ، سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 79کے تحت اس سرمائے کے انتظامات صدر مملکت کی جانب سے فراہم کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق کئے جاتے ہیں لیکن ا س کیلئے کوئی قانون نہیں جس پر سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ یہ 1935کے ایکٹ کے تحت اسی طرح رولز کے مطابق چل رہا ہے اور اس کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے، سرکاری پیسے کے استعمال سے متعلق قوانین نہیں لیکن تمام معاملات آئین میں دیئے گئےرولز کے مطابق چلائے جارہے ہیں ، محسن لغاری نے کہا کہ پیسوں کا اختیار ہمیشہ پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے ، اس معاملےپر بھی پارلیمنٹ کا ایکٹ ہونا چاہئے ، دیگر ارکان نے بھی قانون بنانے کی حمایت کی ، جس پر کمیٹی نے قانون بنانے کی سفارش کر دی ،سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بنائے، وزارت خزانہ کو کوئی اعتراض نہیں ، وزارت خزانہ اپنے تمام رولز کو اپ ڈیٹ کر رہا ہے، دسمبر کے آخر تک اس کو مکمل کر لیا جائیگا ، اس معاملے کو وزیر خزانہ کے پاس لے کر جائوں گا کیونکہ سیاسی قیادت نےقانون بنانے کا فیصلہ کرنا ہے،ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے معاملے کو بھی زیر بحث لایا گیا ، کامل علی آغا نے کہا کہ ایچ بی ایف سی بیوائوں اور یتیموں پر کوئی رحم نہیں کرتا اور ان کو عتاب کا نشانہ بناتا ہے ، ایم ڈی ایچ ای بی سی نے کہا کہ قرضہ لینے والی بیوائوں کیلئے ایک طریقہ کار ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے ، ایچ ای بی سی کے بارے میں ماہر معاشیات شبر زیدی نے بتایا کہ یہ ادارہ کارپوریشن سے کمپنی بن چکی ہے اور وزارت خزانہ کے دائر ہ کار میں ہے ، لیکن یہ ادارہ اب تباہی کی جانب جارہا ہے کیونکہ اس کےپاس پیسہ نہیں ، اس کیلئے حکومت ٹیکس فری بانڈ ز جاری کرے اور اس کے بزنس ماڈل میں تبدیلی لائی جائے ، یہ ادارہ جو ماضی میں سالانہ 50ہزار کم آمدنی والے افراد کو گھر بنانے کیلئے قرضے دیتا تھا اب صرف دو ہزار افراد کو قرضہ دے رہا ہے ، کمیٹی نے ایچ بی ایف سی کو بزنس پلان فراہم کرنے کی ہدایت کردی ، کمیٹی میں آزاد کشمیر میں ڈیم بنانے والی کورین کمپنی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا جس میں کہا گیاکہ ایف بی آر کے اہلکاروں نے اس کمپنی سے رشوت مانگی ہے جس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ، کمپنی کے ودہولڈنگ ٹیکس پر جب کمپنی نے ریفنڈ مانگا تو ایف بی آر کے آزاد کشمیر میں تعینات افسران نے رشوت مانگی جس کی شکایت کورین کمپنی نے خزانہ کمیٹی کو کی ، سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس طرح تو کوئی بھی غیر ملکی پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے نہیں آئےگا، محسن عزیز نے کہا کہ ریفنڈ کی ادائیگی کیلئے رشوت مانگنے سے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری بلکہ مقامی کاروباری افراد بھی متاثر ہورہے ہیں ، جس پر ایف بی آر کے ممبر رحمت اللہ وزیر نے کہا کہ اس معاملے میں دو افسران ملوث ہیں ، جن میں سے ایک ایف بی آر کا ملازم ہے جبکہ دوسرا آزاد جموں کشمیر کونسل سے ڈیپوٹیشن پر آیا ہے ، کورین کمپنی ایف بی آر کو تحریری شکایت کرے ، انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نےاس پر پہلے ہی کارروائی شروع کررکھی ہے ، سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایف بی آر کے کرپشن میں ملوث افسران کے جو کیس ایف بی آر نے کھولے تھے ان کو بند کر دیا گیا ، کمیٹی اس معاملے کو بھی ایجنڈے پر لا سکتی ہے ، کمیٹی نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ کورین کمپنی کے معاملے کی تحقیقات کی جائیں ۔  
تازہ ترین