• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی قیادت میں وفد فکرفردا … راجہ اکبردادخان

سیاست کے علاوہ اکثر شعبہ ہائے زندگی میں افراد جس طرح بھی بن پاتا ہے اپنا زیادہ وقت اور وسائل اپنے آپ کو عالمی استحکام دینے میں صرف کرتے ہیں اور ان کوششوں سے جڑی کامیابیوں کی وجہ سے انہیں کہیں تھوڑی بہت شہرت مل جاتی ہے تو نہ ایسی شہرت ان کے سرپہ چڑھ کر بولنا شروع کردیتی ہے اور نہ ہی لوگوں کا ایک بڑا طبقہ ’’نام‘‘ پیدا کرنے کی ایک اندھی دوڑ کا حصہ بن جانے کیلئے ہر صورتحال سے بغلگیر ہونے کے لئے تیار ملتا ہے۔ ما سوائے سیاستدانوں کے …… اگر ہم وہ سیاست جو پاکستان میںہوتی ہے اور انہی بنیادوں پر کھڑی کی گئی برطانوی کمیونٹی کی سیاست کو لے لیں تو دونوں میںیگانگت اور مفاہمت دیکھنے کو ملتی ہے۔ حالانکہ جب ہم اس ملک اور یورپ کے چند دیگر ملکوں میں بڑی تعداد میں آگئے اور ہم اپنے آپ کو منظم کرنے کی پوزیشن میں پہنچ گئے تو ہماری سیاست جو بالعموم مسئلہ کشمیر کے گرد ہی گھومتی ہے کو بھی عقلمندی یہی تھی کہ ان ممالک کے معاشرتی اور سیاسی تقاضوں کے مطابق ہی استوار کیا جاتا تو اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آج اس مسئلہ پہ اور دیگر کئی اہم کمیونٹی امور پر ایک مختلف صورتحال ہوتی۔ وہاں کے سفارشی اور نااہلیوں سے بھرپور سیاسی سڑکچر کو من عن اس معاشرہ پہ مسلط کردینا ہماری اجتماعی مد ہوشی سمجھا جانا چاہئے۔ مدہوشی کیوں؟ اس لیے کہ کئی بڑے شہروں سے لوگوں کو برادری، علاقیت اور فرقہ واریت کی بنا پر نمائندگی کیلئے بنیادی سیڑھیاں مہیا ہوئیں۔ اگرچہ بہت کم لوگ ہی اقتدار کی اگلی پہڑیوں کو چھو سکے۔ مگر ہم نچلی سطحوں پر معقول تعداد میںہونے کے باوجود بیشتر حوالوں سے معاشرہ میں اپنے لئے تبدیلیاں نہ لاسکے۔ ہماری ناقص کارکردگی سے نقصانات ہوئے۔ ایسا کیوں ہوا؟
صرف ایک ہی جواب ابھرتا ہے کہ یہ لیڈر شپ جسے بہت وقت ملا اپنے آپ کو ایک مخصوص لیول سے اوپر نہیں اٹھاسکی ہے۔ اکثر مقامی اور قومی سطح پر زیادہ کچھ ڈلیور بھی نہ ہوسکا، ان ناکامیوں کے ذمے دار ہم خود ہیں کیونکہ جو فصل ہم کاٹ رہے ہیں یہ ہم نے خود ہی تو بوئی ہے، کشمیر کیونکہ ایک قومی معاملہ ہے لہٰذا ’’ذاتی اٹھان‘‘ کے تعاقب میں ہر شہر میں دکانیں سجی ہیں اور یہی اپروچ کی مضبوط لابی کی تیاری میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔ یہ کمیونٹی کشمیر پر کوئی بڑا چیلنج لانے میں اکیلے ہی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ مگر جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس کے موقع پر حکومت وقت اپنے نمائندوں کے ذریعہ برطانیہ میں متحرک ہوجاتی ہے اور چند ہفتوں کیلئے اجلاس در اجلاس منعقد کروا کر ایک غیر حقیقی ماحول پیدا کردیا جاتا ہے کہ اس بار وزیراعظم یو این کو ہلا کر رکھ دیں گے اور اگلے اجلاس تک مسئلہ یا تو حل ہوچکا ہوگا یا حل ہونے قریب پہنچ جائیگا۔ وغیرہ وغیرہ، یہ ناکام کھیل ایک طویل عرصہ سے چل رہا ہے۔ ہماری دن بدن کمزور ہوتی سفارتی پوزیشن سے شاید پاکستانی سیاستدانوں کو کوئی بڑی پریشانی نہ ہو کیونکہ اس مسئلہ کا زندہ رہنا ان کی سیاسی زندگی کیلئے نہایت اہم ہے مگر یہ صورتحال برطانوی اور یورپی پاکستانی کمیونٹی کیلئے تکلیف دہ اور پریشان کن ہے وجہ؟ پاکستان سے محبت کرنے والی کمیونٹی دیانتدار سیاست پر یقین رکھتی ہے آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان کا روزنامہ جنگ لندن میں شائع یہ بیان جو انہوں نے امریکہ میں دیا کے چند اہم پوائنٹ کہ (1) بھارت کو مہم جوئی کا بھرپور جواب ملے گا۔ (2) جارحانہ ’’مشن کشمیر‘‘ مہم شروع(3)اب احتجاج اور مایوسی کی سیاست نہیں کرینگے (4) آزادی کے یک نکاتی ایجنڈے پر عمل ہوگا قابل فہم ہونے کے ساتھ غور طلب بھی ہے۔
مسئلہ کشمیرپر ایک ’’طویل مدت پلان‘‘ کے تحت برطانوی رائے عامہ بہتر کرنے سے ہی ہمارے موقف کو تقویت مل سکے گی۔ موجودہ صدر مسعود خان جو خود بھی حکومتی ٹیم کے حصہ کے طور پر یورپ اور امریکہ میںلوگوں سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے محو گفتگو رہے، نے22ستمبر کو اخبارات میں شائع ہونے والے ایک بیان میںجن اہم پالیسی نقاط کا ذکر کیا ہے۔ انہیں کسی بھی لحاظ سے کوئی نئی اپروچ نہیں کہا جاسکتا۔ ہر پاکستانی اور کشمیری اس اپروچ کو روز اوّل سے ہی اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ اقتدار میں ہر نیا آنے والا الماریوں میںپڑی ان دستاویزات کو نکال لیتا ہے اور جاتے وقت بحفاظت انہیں پھر انہی الماریوں میں بند کروا دیتا ہے۔ صدر موصوف سے ملنے جلنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر پر سٹیٹس کو توڑنے کی طرف جارہے ہیں۔ صدر موصوف کی ذاتی اور کشمیریوں کی اجتماعی عزت نفس کے احترام میں وہ کچھ نہ کہا جائے جسے کرنا ممکن نظرنہ آتا ہو۔ ویسے کشمیرکے حوالہ سے ہماری طرف کی منجمد صورتحال میں ایسے بیانات ماحول میں موجود مایوسیوں سے نمٹنے کیلئے نہایت مفید ہیں۔ ان کے اس ’’مشن کشمیر‘‘ کی بنیادیں کتنی مضبوط ہیں اور بہتر نتائج کب تک سامنے آسکیں گے؟ پوری قوم ان کی کامیابیوں کے لئے دعاگو ہے۔ موجودہ جمود کو توڑنے کیلئے ایک باجرأت سفارتی عمل یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ گرائونڈ ورک ہوجانے کے بعد اعلیٰ سطح کا ایک وفد بات چیت کیلئے ماحول تیارکرنے بھارت چلا جائے۔ جس میں اس طرف کی کشمیری قیادت کے کچھ لوگ بھی شامل ہوں اور اس وزٹ میں سرینگر کادورہ بھی شامل ہوسکے تو مزید بہتر ہوگا۔ بھارت کیلئے کسی ایسے Gesture سے مکمل پہلو بچانا ممکن نہ ہوگا اور اگر وہ اس طرح کی بے وقوفی کریںگے۔ تو دنیا کے سامنے ننگے ہوں گے۔ تحریکی دبائو، تنقید، کانگریس قائدین کے بیانات اور بڑھتے ہوئے اخراجات مودی حکومت کیلئے بھی بڑھتی پریشانیاں ہیں اور اس طرح کا کوئی سرکاری یا نیم سرکاری Initiative برف پگھلنے میں مدد دے سکے ، نہایت مفید قدم ہوگا جس کی قیادت کیلئے عمران خان سے درخواست ایک ذہین قومی فیصلہ ہوگا۔ موجودہ علاقائی اور دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کا ماحول ہمارے مفاد میں نہیں اور اس کو جتنا جلد ہو ختم کرنے کے لئے سفارتکاریاں متحرک ہوجائیں اتنا ہی بہتر رہے گا۔ کیونکہ ہمارا بھارت کے ساتھ ایک نہایت اہم معاملہ پھنسا ہوا ہے جسے بھول جانا صرف اسی کے مفاد میں ہے۔ لائن آف کنٹرول کی فائرنگ دونوں طرف کے کشمیریوں کیلئے ایک تکلیف دہ حقیقت ہے جس سے معاملات میں مدد نہیں مل سکتی بلکہ شہادتیں ہورہی ہیں اور لوگوں کے مالی نقصانات ہورہے ہیں۔ غالباً ہر کوئی اس بات پہ اتفاق کرتے ہوئے کہ فوجی اقدامات سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ کسی سیاسی اور سفارتی بڑے عمل کا منتظر ہے۔ جس سے بات چیت بحال ہوسکے اور نتائج نکل سکیں۔‘‘ ہم آرہے ہیں ہمیں Recieve کرلو‘‘ ایک ایسا عمل ہوسکتا ہے۔





.
تازہ ترین