• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محافل نعت کے بدلتے انداز تحریر:زاہد انور مرزا…ہیلی فیکس

نعت حُسنِ بے مثال کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرنے کا نام ہے۔ ایسا حسن جس کی تخلیق پر خود خالق کو ناز ہے، ایسا جمال جو ظاہر و باطن میں بے نظیر و بے مثال ہے۔ جس کی آمد سے بت تھرتھرا کر سوئے زمین آگرے، ظلمتیں کافور ہوئیں، مظلوموں کو ہمت گویائی ملی۔ یتیموں کو شفقت و محبت کا سایہ ملا اور بیوائوں کو ردائے عزت نصیب ہوئی۔ نعت امام الانبیاء المرسلین حضرت محمد رسول اللہﷺ کے اوصاف جمیلہ، فضائل محمودہ اور فضائل چنیدہ کے حسن ترتیب کا نام ہے یہ اتنا بڑا مرتبہ ہے کہ حضرت حسان بن ثابتؓ بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں آپ کے روبرو، شاہکار ربوبیت کی رعنائی و زیبائی کو آنکھ سے دیکھ دیکھ کر، نعت خوانی کرتے ہیں اور عرضِ بارگاہ ہوتے ہیں۔ ’’میرے حبیبٖﷺ، میری آنکھ نے تجھ سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا۔ کسی ماں نے تجھ سے بڑھ کر جمیل (اس دنیا میں جنم نہیں دیا۔ آپﷺ ہر عیب سے پاک پیدا کئے گئے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپﷺ کو آپﷺ کی مرضی کے مطابق پیدا کیا گیا‘‘۔
قرآن مجید نے جس خوبصورت پیرائے میں اس محبوبِ یگانہﷺ کے فضائل اور محامد بیان کئے ہیں کسی بشر کی مجال نہیں کہ ان کی گہرائی کو پا سکے، کسی اور نبی و رسول کے سراپا، حسن اور جمال کا تذکرہ اس انداز میں نہیں ہوا جیسا آمنہ کے لال کا کیا گیا۔ نعت گوئی و نعت خوانی کا سلسلہ ہر دور میں، ہر زبان میں جاری رہا، دورِ صحابہؓ سے لے کر آج تک نہ صرف اہل اسلام بلکہ غیر مسلموں نے بھی اس حسن کے حضور ہدیہ عقیدت پیش کیا، مکہ کے بُت پرست، قرآن مجید اور نبوت کا انکار کرنے کے باوجود، آپﷺ کو ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں جس سے آنحضرتﷺ کی عظمت و فضیلت پوری طرح عیاں ہے اور یہی نعت کا مضمون ہے۔ نعت، نعت گوئی، نعت خوانی اور محفل نعت مجموعہ برکات ہے جو زبان پڑھے، خوبصورت، جس جگہ پڑھی جائے وہ جگہ متبرک اور جو کان سنیں، اس سماعت پہ نور کی برسات ہے۔ کلمہ گو کبھی بھی ذکر خدا اور ذکر مصطفیٰﷺ سے غافل نہیں ہو سکتا مگر آدابِ نعت، آدابِ محفل نعت کا لحاظ ضروری ہے۔ جب سے دوسری محافل کی طرح ہم نے محفلِ نعت کو کمرشلائز کر دیا ہے اور اس میں ذاتی شہرت، دنیاوی مفاد اور منفی سیاست کی آمیزش ہوئی ہے اس کی برکات، روحانی اثرات اور الوھی انوار محو ہوتے گئے ہیں اندازہ کیجئے جس بارگاہ میں فرشتوں کے سردار حضرت جبریل امین بھی دم سادھے، ادب و احترام سے حاضر ہوں، جہاں آواز اونچی ہو جائے تو زندگی کی کمائی خاکستر ہو جائے، جہاں ادنیٰ سی بے ادبی دائرہ ایمان سے خارج کر دے، وہاں آج کل کے شرعی تقاضوں سے عاری اور آدابِ شریعت سے خالی محافلِ نعت کیونکر پُرتاثیر اور روحانی بالیدگی سے سرفراز ہو سکتی ہیں۔ جہاں نعت پڑھنے والا، دنیاوی معاملات پہلے سے طے کرے، محفل کروانے والا اپنی معیشت کا ڈھانچہ مضبوط کرنے میں مگن ہو، لوگوں کو دعوت سیاست اور امارت کی بِنا پہ دی جائے، بے شرع، فلمی گانوں کی طرز پہ پڑھنے والے، ریشم کے بھڑکیلے رنگوں کے لباس استعمال کرنے والے لوگ نعت پڑھیں اور نوٹوں کی بارش میں لے اور سُر نکلیں، بھلا وہاں گنبد خضریٰ کی رعنائیوں کا تصور کیا جا سکتا ہے؟؟
برطانیہ میں جہاں دین کے نام پر بہت سے دھندے کھولے گئے وہاں نعت جیسے مقدس لطیف اور نورانی شعبہ کی ساکھ مجروح کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ زکوٰۃ سے ذاتی جاگیریں، پیری فقیری سے خلقِ خدا کو بیوقوف بنانے سے لے کر بیسیوں حربے ہیں جو دینداری کی آڑ میں استعمال کئے گئے۔ سب سے بہترین شعبۂ زندگی مداریوں، شعبدہ بازوں اور کاھنوں کے ہاتھوں ایسا دھند لایا کہ دین متین کی اصل تصویر پیش کرنے والے طعن و طنز کا نشانہ بن گئے۔ جس معاشرہ میں اچھی سُر لگانے والا علامہ، تعویذ دینے والا پیر اور پھونکیں مار کر ڈرامے کرنے والا صوفی کہلائے وہاں درسِ قرآن و سنت سے حقیقی دین کا پرچار کرنے والا کیونکر مقام حاصل کر پائے گا۔ ہماری محافل علماء سے خالی، ہماری مجالس صوفیاء کی متلاشی اور ہمارا طرز عمل شریعت مطہرہ سے متصادم ہے، ہم سماعتوں کی لذت لیتے ہیں، دل کے سوتے خشک رہتے ہیں، باطن کی زمین بنجر کی بنجر رہ جاتی ہے۔ نعت پڑھنے والا خود اسوۂ حسنہ کی تضحیک کا باعث بن رہا ہو تو اس کے کلام میں تاثیر کیونکر آئے گی؟
قارئین! ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری مساجد اور دینی ادارے ایسے افراد کے ہاتھ میں ہوں جنہیں فکرِ دین و ملت کے ساتھ ساتھ علمی شعور اور دینی تعلیم کے ساتھ بھی وابستگی ہو، ہماری دینی محفلیں میلے ٹھیلے کی طرز پر نہ ہوں بلکہ سوز و گداز، لذت اور درد اور عشق و محبت کے جذبات سے سننے والوں کو روح کی تسکین اور باطن کا قرار بخشیں۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نمود و نمائش، ذاتی اغراض و مقاصد اور سیاسی رکھ رکھائو سے اجتناب کرتے ہوئے محافل دینیہ کو اخلاص، محبت اور قریب الٰہی کے تقاضوں نیز آداب رسالتﷺ  ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے منعقد کیا جائے تو دنیا میں بھی عزت و کامیابی ہے اور آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ ہے۔





.
تازہ ترین