• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاشرہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ تیس چالیس سال پہلے تو صورت حال یہ تھی کہ کسی آدمی پر کوئی غلط الزام بھی لگ جاتا، کوئی شرارتاً بھی انگلی اٹھا دیتا تو ’’ملزم‘‘ روہانسا ہوجاتا، ہکلانے لگتا، رونے لگتا، وضاحتیں پیش کرنے لگتا۔ اک ذاتی واردات مجھے آج تک ہانٹ کرتی ہے۔ غالباً پانچویں چھٹی جماعت کے دنوں کی بات ہے۔ کلاس میں میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے والے لڑکے کاظم کے والد پولیس افسر تھے۔ ایک بار اس کے دائیں ہاتھ بیٹھے لڑکے نے کسی معمولی معصوم سے جھگڑے پر اسے رشوت خور کا بیٹا کہہ دیا تو کاظم نے آئو دیکھا نہ تائو، پرکارسیدھی کر کے اس کی ران میں اتار کر اسے لہولہان کردیا۔ اسکول کی ڈسپنسری میں مرہم پٹی کے بعد انکوائری ہوئی تو انگلش ٹیچر صوفی عبدالرحمٰن صاحب مرحوم و مغفور نے کاظم سے پوچھا ’’رشوت خور کسے کہتے ہیں‘‘ کاظم صرف اتنا کہہ پایا کہ ’’سر! رشوت خور گندا آدمی ہوتا ہے اور اس نے میرے ابو کو گندا آدمی کا ہے‘‘۔آج کیا حالات ہیں؟ ہم سب جانتے ہیںاور کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اک ایسا کلچر اپنے شباب پر ہے کہ اگر کوئی کسی جینوئین چور کو بھی چور کہہ دے تو وہ اپنی صفائی پیش کرنے یہ وضاحت دینے کی بجائے الزام لگانے والے کو کہتا ہے ’’تم بھی تو چور ہو‘‘۔اور اگر کسی کی چوری پکڑی جائے، رنگے ہاتھوں پکڑی جائے تو وہ ’’احتجاج‘‘ یا ’’بلیک میلنگ‘‘ پر اتر آتا ہے۔ پچھلے دنوں دو مختلف اشتہارات شائع ہوئے ہیں۔ پہلا اشتہار ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل کی طرف سے ہے جس میں بیشمار نام نہاد نیک نام گھی اور کوکنگ آئیل کمپنیوں کے بارے میں عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ ان کی مصنوعات مضر صحت اور ناقص معیار کی حامل ہیں۔ مزید یہ کہ بدبودار، مصنوعی ذائقوں کی ملاوٹ اور بلند شرح تیزابیت کی وجہ سے بھی یہ نام نہاد ’’نامور برانڈز‘‘ اس قابل نہیں کہ انہیں کھانے میں استعمال کیا جاسکے۔نورالامین مینگل سے میں کبھی ملا نہیں، ملنا کیا کبھی دیکھا بھی نہیں لیکن سنا بہت کہ وہ انتہائی ذمہ دار اور دیانتدار بیوروکریٹس میں سے ہیں۔ ایسا کچھ سننے کی ایک بڑی وجہ یہ کہ مینگل صاحب میرے آبائی شہر لائل پور (فیصل آباد) میں میں بھی کمشنر یا ڈی سی او وغیرہ رہ چکے سو جو لائل پور یا ملنے آتا، محبت اور احترام سے اس شخص کا ذکر کرتا کہ یہ آدمی کتنی تندہی سے شہر کی خدمت کررہا ہے۔ خود ذاتی طور پر میں نے لائل پور جانا بہت ہی کم کردیا ہے کیونکہ اللہ بخشے نہ خلیل سندھو رہا نہ صفدر سعید رہا، نہ نصرت فتح علی اور اس کا خاندان رہا نہ میرا اولمپیئن یار ارشد چوہدری رہا نہ ریاض قادر رہا اور تو اور ریگل سینما بھی ڈھایا جا چکا تو میںنے کیا کرنے جانا ہے۔ جب کبھی جائوں، محاورتاً نہیں حقیقتاً روتا ہوا لوٹتا ہوں سو نور الامین مینگل کی پوری ٹرم ہی میں اپنے شہر نہیں گیا لیکن آنے والوں نے اس غیر افسر قسم کے افسر بارے افسانے بہت سنائے۔قصہ مختصر واپس چلتے ہیں ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی کے اس اشتہار کی طرف جس میں عوام کو بتایا گیا تھا کہ فلاں فلاں گھی اور ککنگ آئیل میں وٹامن اے بھی ناپید ہے اور یہ کم درجہ سپونیفیکیشن کے سبب بھی ناقص اور غیر معیاری ہے۔جواباً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مینوفیکچررز اپنا معیار بہتر کرتے، اپنی مصنوعات کی خامیاں دور کرتے لیکن انہوں نے جوابی اشتہار میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ’’چھاپوں‘‘ کو ہی ’’بلاجواز‘‘ اور ’’غیر قانونی اقدام‘‘ قرار دیتے ہوئے اس عوامی خدمت کو ’’قابل اعتماد برانڈز‘‘ کی ’’کردار کشی‘‘ اور ’’سنگین جرم‘‘ لکھتے ہوئے گھی اور ککنگ آئیل کی ترسیل اور کراچی کے آئیل ٹرمینلز سے سپلائی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تو میں سوچ رہا ہوں کہ ہم سب نے مل جل کر پاکستان کو کہاں پہنچا دیا ہے کہ عوام زہر پھانکنے پر مجبور ہیں اور اگر کوئی متعلقہ سرکاری محکمہ بھی اسے روکنا چاہے تو اسے ’’غیر قانونی‘‘ اور ’’غیر اخلاقی‘‘ قدم قرار دینے کی مکروہ کوشش کی جاتی ہے۔مزہ تب تھا اگر ایسوسی ایشن ان بداعمالیوں، نقائص، کمزوریوں کو چیلنج کرتی جن کی نشاندہی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے سائینٹفک بنیادوں پر کی ہے لیکن نہیں ..... سوال گندم جواب چنا۔میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کو اس جہاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ اتھارٹی کے ہاتھ مضبوط کریں اور غیر معیاری اشیائے خورونوش سے خود اور اپنے خاندانوں کو محفوظ رکھیں۔دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ خادم اعلیٰ اس سلسلے میں عوام کی کیسی خدمت کرتے ہیں یا یہ سب بھی ’’عائشہ ممتاز‘‘ ہی ثابت ہوگا۔

.
تازہ ترین