• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم پاکستانی بڑےبد قسمت ہیں۔ قیادت کے انتخاب کے معاملے میں ہمیں کبھی ایسا موقع نہیں مل سکا کہ ہم اچھائی اور برائی میں سے اچھائی کا انتخاب کرلیں۔ ہمیں ہمیشہ دوبرائیوں میں سے اپنی اپنی دانست کے مطابق چھوٹی برائی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ۔مسلم لیگ(ن) والوںسے پوچھا جائے تووہ اپنی قیادت کو اچھا ثابت نہیں کرسکتے لیکن جواب یہی ہوتا ہے کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی کی قیادت سے اچھی ہے ۔ پی پی پی والے سے پوچھیں تو وہ اپنی قیادت کی خوبی بیان کرنے کی بجائے مسلم لیگ اورباقی دونوں کی قیادت کی خرابیاں بیان کرنے لگ جاتے ہیں اور اب یہی معاملہ پی ٹی آئی والوں کا بھی ہے ۔ پھر چھوٹی اور بڑی برائی جانچنے کا ہر کسی کا الگ الگ پیمانہ ہے ۔ کسی کے نزدیک کرپشن پیمانہ ہے، کسی کے نزدیک وفاق کے مسائل ، کسی کے نزدیک سیکورٹی کے مسائل ، کسی کے نزدیک قیادت کا ذاتی رویہ اور کسی کے نزدیک اس جماعت کے ساتھ وابستگی کی صورت میں اپنا مقام و مرتبہ ۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تینوں بڑی جماعتیں ایک جیسی بن گئی ہیں ۔ تینوں کے اندر جمہوریت نہیں ۔ تینوں کی قیادت اپنی اپنی جگہ آمر اور تینوں کرپٹ لوگوں سے بھری پڑی ہیں ۔ فرق صرف طریقہ واردات کا ہے ۔ تاثر ہے کہ پیپلز پارٹی ڈاکہ ڈالتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) چوری کرتی ہے لیکن لوٹنے والی رقم کی مقدار بسا اوقات پیپلز پارٹی کے ڈاکے کی رقم کی مقدار سے زیادہ ہوتی ہے ۔ تحریک انصاف نسبتاً کم کرتی ہوگی لیکن وہ چوری کے ساتھ سینہ زوری بھی کرتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ملک کو درپیش بڑے مسائل کے حوالے سے کس کی سوچ اور اپروچ نسبتاً بہتر ہے ۔ ترتیب آگے پیچھے ہوسکتی ہے لیکن کم و بیش اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان کے اہم ترین مسائل میں سے سرفہرست مسائل سول ملٹری تعلقات ، خارجہ پالیسی، وفاق کے مسائل یا پسماندہ علاقوں کی محرومیاں، انتہاپسندی اور معیشت ہیں ۔ سول ملٹری تعلقات کے معاملے کو دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کی سوچ اور اپروچ نسبتاً بہتر ہے ۔ اگرچہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پیپلز پارٹی کا ماضی تلخ رہا ہے لیکن اپنے دور اقتدار میں فوج کے ساتھ پیپلز پارٹی کی ڈیلنگ نسبتاًً بہتر رہی ۔ نہ جھگڑا مول لیتی ہے اور نہ مکمل لیٹتی ہے ۔ اس کے برعکس تحریک انصاف مکمل مہرہ ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کا طریقہ منافقانہ ہے ۔ ایک منٹ میں ہاتھ گریبان میں لے جاتی ہے اور دوسرے منٹ میں وہی ہاتھ قدموں میں ۔یہ بھی تاثر ہے کہ منہ میں رام رام اور بغل میں چھری کی وجہ سے جنرل راحیل شریف جیسے شریف ہوں یا جنرل پرویز مشرف جیسے مست انسان ہوں ، مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی محاذ آرائی یقینی ہوتی ہے ۔ اسی طرح پاکستان میں اگر کسی جماعت کی خارجہ پالیسی ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے ۔ مسلم لیگ(ن) کی خارجہ پالیسی کا کوئی تصور نہیں ۔ جن ملکوں کی جانب خاندان کا رخ ہوتا ہے ، وہ اس کی خارجہ پالیسی میں سرفہرست ہوتے ہیں ۔ پچھلے دور میں سعودی عرب ، کوریا اور امریکہ دلچسپیوں کے مرکز تھے اور اب ترکی، چین اور قطر وغیرہ ۔مسلم لیگ ن کے مخالفین یہ کہتے ہیں انڈیا کے معاملے پر اس کا دل یزید اور تلوار حسین کے ساتھ ہے ۔دونوں کی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور ناکامی کا موازنہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ جب ترکی میں پہلی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ہورہی تھی تو پاکستان کے اعتراض کی وجہ سے ہندوستان کو دی گئی دعوت واپس لے لی گئی اور ہندوستان کو اس سے باہر رکھا گیا لیکن آج مسلم لیگ(ن) کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا یہ عالم ہے کہ وہ کانفرنس ہندوستان میں منعقد ہورہی ہے جس میں ہمارے وزیرخارجہ قومی غیرت پر قدم رکھ کر شریک ہورہے ہیں کیونکہ ہندوستان اور افغانستان نے پاکستان میں سارک کانفرنس میں آنے سے انکار کیا تھا۔ اسی طرح تحریک انصاف کی سرے سے کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں ۔ کل تک طالبان کی حمایت کی ہدایت تھی تو اس کی قیادت طالبان کی حمایت کررہی تھی اور آج مخالفت کا حکم ہے تووہ مخالف ہے ۔ ذاتی ضرورت ہو تو خود درخواست کرکے نریندرمودی سے ملاقات کیلئے پہنچ جاتے ہیں لیکن سیاسی ضرورت ہو تو منتخب وزیراعظم کو بھی مودی کے یار کا طعنہ دیں ۔ وفاق کے مسائل اور محروم علاقوں کی محرومیوں سے متعلق تو ہر کوئی جانتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہے ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے محروم صوبوں اور محروم علاقوں کی محرومیوں کو دور کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی ۔ گلگت بلتستان اور فاٹا کو اگرچہ غلامی سے نجات نہ مل سکی لیکن دونوں محاذوں پر پہلا پہلا قدم اٹھایا گیا لیکن مسلم لیگ(ن) کے دور میں بلوچستان، سندھ، پختونخوا، فاٹا ، کشمیر اور گلگت بلتستان تو کیا جنوبی پنجاب کی محرومیاں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں ۔ سی پیک گلگت بلتستان، پختونخوااور سب سے بڑھ کر بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کیلئے تریاق ثابت ہوسکتا تھا جس کی بنیاد پیپلز پارٹی کے دور میں رکھی گئی ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے گوادر سنگاپور کی کمپنی سے لے کر چینی کمپنی کو دے دیا جبکہ سی پیک کیلئے ایم او یو پر دستخط بھی اس وقت ہوئے جب زرداری صاحب ملک کے صدر تھے ۔ افسوس کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسے متنازع بنا دیا اور اس کو اس طرح خاندانی اور علاقائی منصوبہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ وہ محروم علاقوں کی محرومیوں میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے ۔ انتہاپسندی کے معاملے کو دیکھا جائے تو اس سے متعلق مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف یکساں کنفیوژ ہیں اور پیپلز پارٹی مجموعی طور پر لبرل جماعت ہے جبکہ بلاول زرداری تو کچھ ضرورت سے زیادہ لبرل ہیں ۔ معیشت کے معاملے میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اور یوں ان کی پالیسیوں کا رخ بھی ان کے مفاد کی طرف ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اب بڑی حد تک اس طبقے کے نرغے میں آچکی ہے لیکن کچھ نہ کچھ زراعت کو اور غریب کو مل جاتا ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی پاکستان کی ضرورت بن جاتی ہے اور پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے اس کا نیاجنم ضروری ہے ۔ کچھ عرصہ سے جب بلاول زرداری متحرک ہوگئے اور قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ جیسے متحرک انسان نے لے لی تو کچھ امید پیدا ہوگئی ۔ پھر جب بدعنوانی کیلئے مشہور ناموں کو پیچھے کرکے قمرزمان کائرہ ، ندیم افضل چن، مصطفیٰ کھوکھر، فیصل کنڈی، نورعالم خان، اخونزادہ چٹان اور اسی نوع کے چہرے بلاول کے آگے پیچھے نظر آنے لگے تو پیپلز پارٹی کے نئے جنم کی امید مزید تازہ ہوگئی لیکن افسوس کہ زرداری صاحب کے اس اعلان نے کہ وہ واپس آکر قیادت سنبھال رہے ہیں امیدیں دم توڑنے لگیں اور پھر جب انہوں نے کراچی جیسے شہر کی تنظیم کیلئے ڈاکٹر عاصم کو جنرل سیکرٹری بنا دیا تو امیدکی جگہ مایوسی نے لے لی ۔میں نہیں جانتا کہ پیپلز پارٹی کے کتنے مختار آصف زرداری صاحب ہیں اور کتنے بلاول صاحب لیکن جو بھی مختار ہے ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حکومت چالاکی سے چلائی جاسکتی ہے۔ لیکن پارٹی کو چالاکی کے ساتھ دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا ۔ جن کاموں نے پیپلز پارٹی کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے ، ان سے حقیقی معنوں میں توبہ کرنا ہوگی اور جن پالیسیوں نے پیپلز پارٹی کو پاکستانی عوام کی امیدوں کا مرکز بنا لیا تھا ، ان پالیسیوں کوحقیقی معنوں میں اپنانا ہوگا۔ بلاول صاحب کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ باپ کی رہنمائی ان کیلئے ضروری ہے لیکن یہ تاثرموجود ہے کہ ان کے سائے میں وہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے جو وہ دکھا رہے ہیں ۔ اسی طرح ان کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ موجودہ پاکستان اسی کی دہائی والا پاکستان نہیں ۔ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ آج کی نئی نسل جانتی ہے کہ کون کتنا پانی میں ہے ۔ اس لئے صرف جئے بھٹو کے نعروں سے کام نہیں چلے گا ۔ انہیں حقیقی معنوں میں ملکی مسائل کا حل پیش کرنا ہوگا اور ان لوگوں کو آگے لانا ہوگا کہ جو اس حل کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہوں۔

.
تازہ ترین