• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سڑک کنارے بہت سے لوگوں جمع تھے، وقت کے ساتھ ساتھ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک عجیب و غریب مخلوق پر ایک مکینک ٹائپ آدمی بیٹھا ہوا ہے۔ سارا مجمع حیرت اور داد کے ملے جُلے تاثرات سے اس مخلوق کو دیکھ رہا تھا۔ وہ مخلوق جو بورے والہ میں ایجاد ہوئی اور جس کا موجد اس کے اوپر براجمان تھا، بعد میں موٹر سائیکل رکشہ اور مزید بعد میں چنگ چی رکشہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اگلے روز بیسیوں خالی تانگے قطار در قطار بازار سے گزر کر احتجاج کر رہے تھے اور سننے میں آیا کہ تانگہ یونین کے لوگوں نے لگے ہاتھوں موٹر سائیکل رکشہ ایجاد کرنے والے مکینک کی پٹائی بھی کر دی لیکن وہ احتجاج اور بیچارے مکینک کی پٹائی موٹرسائیکل رکشہ کا راستہ نہ روک سکی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے چند سالوں میں بورے والہ میں موٹرسائیکل رکشہ بنانے کی ایک چھوٹی سی صنعت قائم ہو گئی اور روزانہ سینکڑوں رکشے تیار ہو کر پورے ملک میں سپلائی ہونے لگے۔ تانگہ گھوڑا چند سالوں میں معدوم ہو گیا۔
ان دس بیس سالوں میں بیوروکریسی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسیاں امریکہ سے سفر کرتی ہوئی پاکستان پہنچیں تو خود مختار آرگنائزیشنز، کارپوریٹ کمپنیاں اور ریگولیٹری اداروں کی شکل میں نئے نئے بیوروکریٹک ادارے سامنے آنے لگے۔ بیوروکریسی کے پرانے گڑھ یعنی وفاقی و صوبائی سیکرٹریٹ، سی بی آر، آئی جی اور کمشنر آفس، ٹیکس اور کسٹم ہائوس کی چمک ماند پڑنے لگی اور نئے ادارے اور کمپنیاں طاقت، اختیارات، پیسے اور شان و شوکت کے مراکز کے طور پر سامنے آنے لگیں۔ ان اداروں میں سی ایس ایس افسروں کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر سے لوگ بڑے بڑے منفعت بخش عہدوں پر براہ راست آنے لگے۔ پرانی وضع کے بیوروکریٹس نئے اداروں اور نئی قسم کی بیوروکریسی سے نالاں ہوئے لیکن وہ اس جدت کا راستہ نہیں روک سکے۔
پاکستان میں پچھلے دس بارہ سالوں میں الیکٹرانک میڈیا کا انقلاب آیا تو اس کو ریگولیٹ کرنے کے لئے پیمرا کا ادارہ قائم ہوا۔ جس برق رفتاری سے الیکٹرانک میڈیا نے ریاست اور معاشرے میں طاقت اور اثرو رسوخ حاصل کر لیا اور جس تیزی سے کاروبار کی دنیا میں یہ اتنی بڑی انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا، پیمرا اتنی زیادہ فعالیت کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔
ابصار عالم کو چیئرمین پیمرا بنائے جانے پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ کچھ حلقوں نے اسے سراہا تو کچھ حلقوں کی طرف سے اعتراض بھی سامنے آئے۔ ایک اعتراض جو مجھے وزنی معلوم ہوا وہ یہ تھا کہ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری کے لئے میڈیا ہی سے کسی شخص کو منتخب کرنا مفادات کے ٹکرائو کے زمرے میں آتا ہے۔ ریگولیٹری اداروں کے حوالے سے جو قانونی ارتقا ہوا ہے اس میں ریگولیٹری گرفت(Regulatory capture)کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یعنی ریگولیٹری ادارے کو ایسے لوگ اپنی گرفت میں لے لیں جو اسی انڈسٹری سے تعلق رکھتے ہیں جس انڈسٹری کو اس ریگولیٹری ادارے نے کنٹرول کرنا ہوتا ہے لیکن اس اعتراض کے رد کیلئے جو دلیل دی جاتی ہے اس میں بھی وزن ہے کہ الیکٹرانک میڈیا، ٹی وی چینلز اور اینکرز جتنے طاقتور ہو چکے ہیں، پرانی وضع کے بیوروکریٹ انہیں کنٹرول نہیں کر سکتے۔ ان کو بہتر طریقے سے ریگولیٹ بھی کوئی ایسا ہی شخص کر سکتا ہے جو خود الیکٹرانک میڈیا سے متعلق ہو بشرطیکہ وہ اپنے فرائض پیشہ ورانہ دیانت داری سے ادا کرے۔ اعتراض اور جوابی دلیل پر فیصلہ آپ کے اوپر چھوڑتے ہیں۔
ابصار عالم کی کمان میں پیمرا الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے مواد کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری پوری کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ چینلز کو جرمانے، شوز پر پابندی، اینکرز کو شوکاز نوٹسز جیسے اقدامات سے پیمرا نشر ہونے والے مواد کو بڑی حد تک کنٹرول کر چکا ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین پیمرا اپنے ساتھی اینکرز کے غیض و غضب کا نشانہ بھی بنتے رہے ہیں۔ کیا اپنے ہی شعبے کے ساتھیوں کی ناراضی مول لیناا ٓسان کام ہے؟ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ پیمرا کی طرف سے جاری ہونے والے سارے شوکاز نوٹس، جرمانے، بندشیں درست جائزوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ بہت سی مثالیں ایسی ہیں جن پر اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن جب کوئی نظام قائم ہو رہا ہوتا ہے، وہ اپنی ابتدائی ارتقائی منزلیں طے کر رہا ہوتا ہے تو غلط فیصلے ہوجایا کرتے ہیں، زیادتی بھی ہو جاتی ہے۔ غیر ملکی مواد کے تناسب اور پروگرامز کے دوران اشتہارات کے لمبے وقفوں کو کنٹرول کرنے کیلئے قانون میں تبدیلیاں اور پہلے سے موجود قانون پر عملدرآمد کوئی آسان کام نہ تھا، یہ کارنامے چیئرمین پیمرا اپنے نام لکھوا چکے۔ الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے آئے روز نت نئی ٹیکنالوجی سامنے آرہی ہے۔ یہاں بھی نئی اور پرانی ٹیکنالوجی کے درمیان کشاکش جاری ہے۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
پیمرا چونکہ ابھی ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے اس لئے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو بھی قوانین، ضابطے، رویئے اور طریقہ ہائے کار اپنائے جائیں یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ ریگولیشن اور سنسرشپ کے درمیان بال جتنا باریک فرق ہے۔ نشر ہونے والے مواد کی ریگولیشن کب سنسر شپ کی سرحد میں داخل ہو جاتی ہے، اس بات کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔ حکومتوں اور اداروں کی خواہش ہوسکتی ہے کہ ایک خاص قسم کا مواد نشر نہ ہو جبکہ الیکٹرانک میڈیا کی خواہش ہوگی کہ میڈیا پر کم سے کم پابندیاں لگائی جائیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ایک شفاف معروضی (Objective) طریقہ کار وضع کیاجائے اور اس پر عمل کیاجائے۔ موجودہ قوانین اور ضابطوں میں تفصیل اور صراحت کی کمی کی وجہ سے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ جتنا ابہام کم ہوگا اتنا ہی نظام بہترانداز میں چلے گا۔

.
تازہ ترین