• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائی کمان کی تبدیلی تحریر:سبط حسن گیلانی…لندن

افواج میں ہائی کمان کی تبدیلی ہو یا ایوان اقتدار میں حکومتوں کی، اسے ایک معمول کی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ دنوں ایوان اقتدار میں تبدیلی آئی۔ سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنا سامان باندھنے میں اپنی فیملی کی مدد کی کچھ بھاری سامان خود اٹھایااور 10ڈائوننگ سٹریٹ سے ایسے رخصت ہوے جیسے کوئی مسافرہوٹل سے شب بسری کے بعد رخصت ہوتا ہے۔ میڈیا میں کچھ تصویریں شایع ہوئیںاور اللہ اللہ خیر صلہ۔کسی کالم نگار نے الوداع اے قائد کے عنوان سے نہ درد بھرا کالم لکھا نہ کسی تجزیہ نگار نے مورخ کو دہائی دی۔تھریسامے کی ایک جھلک ملکہ کے حضور حاضری دیتے اور بارش میں بھیگتے بھاگھتے گاڑی میں سوار ہوتے سمے دیکھی اور دوسری اپنی فیملی اور گنے چنے لوگوں کے سامنے ایک مختصر سی تقریر کرتے ہوے۔ دوسرے دن کا سورج معمول کے تحت طلوع ہوا۔اور زندگی کی گاڑی اپنی ڈگر پر چلتی رہی۔افواج میں ہائی کمان کی تبدیلی پر تو پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں سرکتا۔یہ کام ہر اس ملک میں ہوتا ہے جو ایک عدد فوج رکھتا ہے۔مہذب جمہوری ممالک میں زندگی کے دوعشرے گزارنے کے بعد بھی آنکھیں ہمیشہ ترستی ہی رہیں لیکن مجال ہے جو کبھی لمحے بھر کوہی سہی سپہ سالار اعلیٰ کی کہیں جھلک دیکھنی نصیب ہوئی ہو۔اس لئے کہ جن اقوام نے طے کر لیا ہے کہ ان کی زندگی کسی قائدے اور قانون کے تحت بسر ہو ںگی وہاں ایسے زلزلے نہیں آتے جو ہمارے ہاں معمول بن چکے ہیں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ بلجیم میں چند سال پہلے ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب مرکز میں حکومت نام کی کوئی شے موجود نہیں تھی۔ اور یہ کوئی ایک آدھ دن کی بات نہیں نصف برس کی کہانی ہے۔میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ ایک لمحے کے لئے بھی عوام کی زندگیوں میں کوئی ہلچل نہیں مچی ۔اس لیے کہ وہاں ادارے مضبوط تھے ہر کوئی اپنا اپنا کام سنبھالے ہوے تھا۔ لیکن ہم اس نیلی چھت تلے شائد کرہ ارض کی واحد قوم ہیں جنہیں ایسی معمول کی کارروائی کو معمول کے مطابق ہوتے ہوے دیکھنے کی سہولت میسر نہیں۔درہ آدم خیل سے لیکر اس پار امر کوٹ تک،پوری قوم کی حالت اس عورت جیسی ہوتی ہے جو اپنی جھونپڑی میں دردِ زہ سے تڑپ رہی ہواور اس کے ارد گرد اس کے خاندان کو بچے کی پیدائش کی خوشی بھول کر اس کی جان کے لالے پڑے ہوں۔ ہمارے ہاں اگر کوئی سب سے زیادہ مظلوم شے ہے تو وہ ہے قانون۔ ادارے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔سول حکومت کو آئین نے جو حاکمیت بخشی ہے وہ اپنا حق اپنی اعلیٰ کارکردگی کے بل بوتے پر حاصل کرنے کی بجائے شارٹ کٹ راستوں پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔اسے آج تک اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوسکا کہ اس کے آئینی حق کا اگر کوئی محافظ ہے تو وہ افواج نہیں عوام ہیں۔ایک جمہوری بندوبست میں طاقت کا سر چشمہ جرنیل نہیں عوام ہوتے ہیں۔جب تک عوام زبوں حال ہیں، کچلے ہوئے ہیں۔اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش میں ہلکان ہیں۔بے روزگاری و مہنگائی کے ہاتھوں خود کشی پر مجبور ہیں۔اس وقت تک ہر سیاسی حکومت کا وزیراعظم جرنیلوں کے سامنے فدوی ہی رہے گا۔بے شک آئین کی کتاب میں اس کا مقام اونچا ہی کیوں نہ لکھا رہے۔آئین میں صدر مملکت افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے۔وہ چیف آف آرمی سٹاف کو وزیراعظم کے مشورے سے مقرر کرتا ہے۔ اس کے بعد صدر ہو یا وزیر اعظم افواج کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتے۔نہ کسی کی ترقی نہ تبادلہ سب کچھ اندرونی قاعدے قانون اور ڈسپلن کے تحت ہوتا ہے۔اگرسول حکومت اس قاعدے قانون اور ڈسپلن کا نصف بھی پولیس اور دیگر انتظامی اداروں میں نافذکر دے تو حیرت انگیز نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔کیا اس کام میں کوئی فوجی جرنیل رکاوٹ ہے؟تھانوں میں تھانے دار اور ضلعی صدر مقاموں پر ایس پی مقامی سیاست دانوں کی ایما پر ایسے تبدیل ہوتے ہیں جیسے رات کے وقت جیل خانوں کے سنتری۔یہ کونسی جمہوریت ہے جناب؟۔ایک عام آدمی کی براہ راست رسائی نہ ایس پی سے ہوتی ہے نہ ڈی سی سے۔اور نہ ہی قانون نے ان کے ذمے یہ کام لگایا ہے۔ اس کی براہ راست رسائی پٹواری سے ہوتی ہے اور تھانیدار سے۔پٹوار خانے کا حال یہ ہے کہ کوئی کتنا بھی پاٹے خان ہو جیب میں ہاتھ ڈالے بغیرجمع بندی کے رجسٹر کے منھ سے ایک لفظ اُگلوا کر دکھا دے۔یا تھانے میں جاکرچاے پانی کے بغیر تھانے دار کو سارے گائوں محلے کے کسی آنکھوں دیکھے واقعے پر یقین دلوا کر دکھا دے۔یہ اس صوبے کا حال ہے جہاں کی اچھی حکمرانی کے من گھڑت قصائد سے اخبارات کے صفحوں کے صفحے سیاہ ہوتے ہیں۔ میں بلوچستان اور سندھ کے کسی دور دراز علاقے کی بات نہیں کرتا شمالی پنجاب کے مرکز بلکہ اسلام آباد سے سومیل کے اندراندر ایسے علاقے دکھا سکتا ہوں جہان جانور اور انسان آج بھی ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں۔کیا یہی لچھن ہیں جمہوریت کے مضبوط کرنے کے؟ جمہوریت جمہور کے مضبوط ہونے سے مضبوط ہوتی ہے حضور۔ جس دن جمہور نے سُکھ کا سانس لیا اس دن جمہوریت پر کوئی طالع آزما بری نظر ڈالنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ ورنہ حکمرانوں کو سکھ کی چند گھڑیاں ہائی کمان کی تبدیلی کے وقت ہی دیکھنے کو ملیں گی۔ وہ بھی اگر اچھے نصیب والے ہوے تو۔




.
تازہ ترین