• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کی جانب سے تجارتی اور دیگر مقاصد کے لیے بینکوں سے حاصل کیے گئے بھاری قرضے معاف کرانا بلاشبہ قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔اس تناظر میں گزشتہ روز اسٹیٹ بینک کی جانب سے پارلیمنٹ کو ان قرضوں کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکارپاکستانی عوام کے لیے بجاطور پر حیرت انگیز ہے ۔ جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد وضوابط اور استحقاق کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے حکام نے قرضوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت تمام تفصیلات پیش نہیں کی جاسکتیں جس پر کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان نے پوچھا کہ جب حساس خفیہ ایجنسیوں کے معاملات پر اِن کیمرہ بریفنگ ہوسکتی ہے توقرضہ معافی کے معاملات چھپانے میں کون سا قومی مفاد ہے؟کمیٹی کا موقف تھا کہ آئین اور قانون کے تحت تمام ادارے پارلیمنٹ کو معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں جبکہ سیکریٹری خزانہ وقار مسعود کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج سے قانونی رائے لے لی گئی ہے کہ بینک اس قسم کی معلومات پارلیمنٹ کو دینے کا پابند نہیں ۔کمیٹی کے ارکان کا موقف تھا کہ چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کے مقابلے میں بینک کے قانونی مشیر کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی،قرضوں کی معافی ایوان کے اختیار اور استحقاق کا مسئلہ ہے لہٰذا کمیٹی لازماً اس معاملے کا مکمل جائزہ لے کر رہے گی جو چیئرمین سینیٹ نے کمیٹی کو بھیجا ہے۔ فی الحقیقت قرضوں کی معافی عشروں سے جاری ایک سنگین قومی مسئلہ ہے جس سے قومی خزانے کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے ۔ گزشتہ جولائی کی تیئس تاریخ کو سینیٹ میں ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے ایوان کو بتایا تھا کہ سب سے زیادہ قرضے 2015ء میں معاف کرائے گئے جن کا حجم 270ارب روپے ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں ایک ہزار سے زائد کمپنیوں نے بینکوں سے لیے گئے قرضے معاف کرائے ۔ یہ صورت حال قومی معیشت کے لیے جس قدر نقصان دہ ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔اگر کھربوں روپے اس طرح نہ ڈوبتے تو یقینی طور پر ملک میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے لیے خطیر وسائل فراہم ہوسکتے تھے اور حکومت اس مقصد کے لیے جو بھاری قرضے لے رہی ہے ان میں قابل لحاظ کمی واقع ہوسکتی تھی جبکہ موجودہ صورت حال کی بناء پر پچھلے تین برسوں میں پاکستانی قوم پر آٹھ ہزار ارب کے نئے قرضوں کے بوجھ کا اضافہ ہوا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ریکارڈ پر موجود معلومات کے مطابق تین سال پہلے اگر ہر پاکستانی شہری چھیانوے ہزار روپے کا مقروض تھا تو آج قرض کی یہ رقم بڑھ کر ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب جاپہنچی ہے۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہی ملک کا سب سے بالاتر ادارہ ہوتا ہے جسے عوام براہ راست منتخب کرتے ہیں لہٰذا اس کے توسط سے تمام ریاستی ادارے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ عدالتیں بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہی فیصلے کرتی ہیں۔ اس لیے اسٹیٹ بینک کی جانب سے معاف کرائے گئے قرضوں کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے گریز آئین اور قانون کے منافی نظر آتا ہے تاہم اگر کسی قانونی سقم کی وجہ سے ایسا ہو تو مناسب قانون سازی کے ذریعے اسے جلداز جلد دور کیاجانا چاہیے بصورت دیگر اسٹیٹ بینک کو متعلقہ معلومات کی فراہمی سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ کرپشن یقینی طور پر ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اور ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ معاملات میں مکمل شفافیت کرپشن کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے لہٰذا بینکوں سے کھربوں کے قرضے معاف کراکے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کی پردہ پوشی کا کوئی جواز نہیں ، ایسے افراد اور اداروں کو نہ صرف بے نقاب کیا جانا ضروری ہے بلکہ ان سے معاف کرائے گئے قرضوں کی واپسی کابندوبست بھی ناگزیر ہے تاکہ پاکستانی قوم اپنے وسائل سے اپنی زیادہ سے زیادہ ضروریات پوری کرسکے اور ملک جلد از جلد پوری طرح اپنے پیروںپر کھڑا ہوسکے۔


.
تازہ ترین