• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی پالیسی و فیصلہ ساز اسٹیبلشمنٹ(بحیثیت مجموعی) اور اس پر اثر انداز ہونے والے وہاں کے مقتدر قومی حلقوں نے، پاک، امریکہ باہمی مفادات کی تاریخ میں امریکہ کے واضح بڑے بینی فشری ہونے کے باوجود، واشنگٹن کے لئے اسلام آباد کی اہمیت و حیثیت تسلیم کرنے میں انتہائی کنجوسی برتنے کا روایتی رویہ تشکیل دیا ہے۔ اس کا براہ راست اثر امریکی میڈیا، منتخب نمائندگان جملہ امریکی سائوتھ ایشیا واچ اور کافی حد تک پاکستان سے متعلق امریکی رائے عامہ پر پڑا ہے۔ واشنگٹن کے پالیسی ساز سرد جنگ میں پاکستان کو سوویت یونین کی بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچ کی زبردست خواہش کی تکمیل میں حائل رکاوٹ سے آگے نہ دیکھ سکے۔ حتیٰ کہ سمندری سرحدوں(اوشن بائونڈریز) سے محروم سینٹرل ایشیا کی سوویت ایمپائر سے الگ ہو کر آزاد مملکتیں بننے کے بعد بھی ، وہ اس ظہور پذیر اٹل حقیقت کو پورے طور نہیں سمجھ پائے کہ ایک دن پاکستان کی700کلو میٹر کی اوشن بائونڈری نے ان لینڈ لاکڈ آزاد ریاستوں کو ہی نہیں آنے والے وقت میں چین کو آسان ترین اور ماسکو کو اس کی دیرینہ خواہش اور ضرورت کے مطابق رسائی دینی ہے اور یہ اتنی پرامن اور کئی خطوں کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے والی اسمارٹ اور گرینڈ گیم ہوگی کہ اس کی کسی طور مخالفت یا اس میں رکاوٹ ڈالنا ممکن نہ ہوگا۔ امکانی حقیقت یہ تھی کہ معاملہ پاک، امریکہ تعلقات اور مسئلہ افغانستان تک پاکستان کے مطلوب تعاون(جو وہ اپنی سکت سے کہیں زیادہ دے چکا) تک محدود نہیں تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا جو امریکہ اور اس کے عوام کے گہرے مفاد میں تھا اور بہت دور رس ہوتا کہ سوویت ایمپائر کے انہدام کے بعد نئی عالمی اور خطے کی صورتحال میں پاکستان کی کوئی بنتی امکانی حیثیت کا جائزہ لیا جاتا اور واشنگٹن اپنی ایک نئی پاکستان پالیسی بمطابق تشکیل دیتا۔ افغانستان سے سوویت ا فواج کے انخلاء کی نو سالہ جنگ کے پیچیدہ اطرافی اثرات سے نپٹنے کے لئے پاکستان کو تنہا نہ چھوڑ تا جبکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کی صدیوں میں تشکیل ہونے والی سوشل انجینئرنگ تو پہلے ہی بہت منفرد اور آسانی سے بمطابق مینیج ہونے والی نہ تھی، اوپر سے پوری دنیائے اسلام سے جہادی ’’جہاد افغانستان‘‘ سے فارغ ہو کر واپس ہونے کی بجائے افغانستان کے محفوظ علاقوں اور وزیرستان میں مقیم ہوگئے۔ وہ اتنے چارجڈ تھے کہ ان کی نظر مسئلہ فلسطین پر پڑنے لگی، جہاں امریکہ اور ان کا مفاد متصادم تھا۔ تنظیمیں بننے لگیں۔ امریکی سیاسی دانشوروں نے مجاہدوں کو پہلے بنیاد پرست اور پھر ان کی ماورائے ریاست اور غیر قانونی وارداتوں (جو واقعی دہشت گردانہ تھیں) پر انہیں دہشت گرد قرار دے دیدیا اور وہ دہشت گرد ہی بنتے گئے، حالانکہ انہیں کئی طریقوں سے اور کئی مقاصد کے لئے مینیج کرنے کی ضرورت تھی جس میں پاکستان اور افغانستان نے بہت اہم کردار ادا کرنا تھا جو خود امریکہ کے عالمی سطح کے مثبت کردار ادا کرنے کی راہ ہموار کرتا۔ لیکن واشنگٹن کسی اور چکروں میں پڑ گیا، اسے نیو ورلڈ آرڈر کا بخار اس وقت چڑھا جب دنیا ٹیکنالوجی کے زور پر مارشل ملکوہن کی Visualization کے مطابق واقعی تیزی سے ’’گلوبل ویلج‘‘ میں ڈھلتی معلوم دینے لگی۔ لیکن امریکہ نئے نئے جھمیلوں میں الجھنے لگا جس میں ایک عراق بھی ہے، جس پر حملے کے خلاف سب سے زوردار صدائے احتجاج خود امریکہ سے ’’وار فار آئل‘‘ کی لگی اور ’’ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ پر اقوام متحدہ کے انسپکٹر کی عراق کے فری کنٹری ہونے کی رپورٹ بش انتظامیہ نے کوڑے کی ٹوکری میں ڈال کر وہی کیا جو ٹھان لی تھی۔
جہاں تک مسئلہ افغانستان سے قبل پاک۔ امریکہ دو طرفہ تعلقات کی تاریخ کا تعلق ہے دونوں ملکوں کے فوائد کی فہرست کرونولوجیکلی کی جائے تو امریکہ کہیں بڑا بینی فشری ہوگا۔ سوویت ایمپائر کے انہدام میں افغانیوں اور اسلام آباد کے کردار کا حصہ تو ایک ہے، پاکستان کو اگر اس کا کوئی فائدہ پہنچا بھی تو وہ نائن الیون سے پاکستان کو ہونے والے امریکہ سے کہیں زیادہ نقصان نے برابر نہیں کردیا؟ پاکستان کی داخلی سلامتی مسلسل خطرے میں ڈال دی گئی۔ 80 ہزار معصوم شہریوں اور ٹرینڈ فوجیوں کی جانوں کا ناقابل تلافی اور 120 ارب ڈالر کا مالی نقصان۔ ان فوائد کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ ہے جو ابتدا سے پاکستان کو اس امریکی مدد سے ہوا جس کا بینی فشری پاکستانی حکمراں طبقہ ہی رہا اور عوام کم تر۔
اس پورے تاریخی پس منظر اور حال کی صورت حال میں نواز۔ ٹرمپ رابطہ اور اس میں منتخب امریکی صدر ٹرمپ کا پاکستان کے لئے بھرپور خیرسگالی پیکیج اسلام آباد کی جانب امریکی رویے میں بہت بڑی اور چونکا دینے والی تبدیلی کا عندیہ ہے ۔ اتنی بڑی کہ چار و ناچار نہ چاہتے ہوئے بھی یہ امریکہ کی بھی اور بڑی عالمی خبر بنی ہے۔ جس نے امریکہ میں پاکستان کی جانب ایک مخصوص رجعت پسندانہ رویے کے حامل سیاسی، علمی اور ابلاغی حلقوں کو ایک بڑے صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ وہ اپنے منتخب صدر کے پاکستان پر ’’دھماکہ خیز‘‘ (ان کے لئے) ابلاغ پر پریشان ہوگئے۔ جس کی شدت کم کرنے کے لئے انہوں نے یہ بیانیہ گھڑا کہ ’’پاکستان نے منتخب صدر ٹرمپ کے حیرت انگیز مثبت ابلاغ کو لفظ بالفظ میڈیا کے لئے جاری کردیا۔ کیوں نہ کرتے، کیا عالمی میڈیا میں وہ ہی کچھ آنا چاہئے۔ (یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ رابطے کی اطلاع قوم کو کس کی طر ف سے جاری ہونی چاہئے تھی؟ لیکن ہم یہ سوال اٹھا کر پیش رفت کو کیوں دبائیں؟) جس پر پاکستان کے خلاف امریکی اور عالمی رائے عامہ کا زاویہ نگاہ منفی ترین ہے اور تو اور ہمارے اپنے اوپر خود ہی دانشوری طاری کرنے والے ٹاک شوز کے باکمال دانشور سی این این کے موضوع پر ٹاک شو کے ایک ہی شریک کی رائے سے اتنے احساس کمتری میں مبتلا ہوئے کہ انہوں نے بھی کہنا شروع کردیا کہ ’’پاکستان نے امریکی منتخب صدر کے پاکستان، پاکستانیوں اور اس کے وزیراعظم کی بھرپور توصیف میں سارا کچھ میڈیا کو دے کر سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی ہے۔ بالکل نہیں کی یہ تو سفارت کاری کا غیر معمولی رنگ ہے، جس کی اپنی خبریت ہے۔ کوئی ادب وآداب کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ بھارتی پریشانی بھی یہ ہی ہے جو پاکستان مخالف میڈیا کی تو پاکستانی کیوں؟ تاہم اس نئی طرز کی ڈپلومیسی سے کہ ہمارے وزیراعظم نے رسمی مبارکباد کے کئی روز بعد دوسرا رابطہ صدارتی حلف اٹھانے سے پہلے پھر کیا اور اس میں نومنتخب صدر کی اتنی خیرسگالی۔ یہ معاملہ کوئی اور ہے، کیا ہوسکتا ہے؟ آئندہ ’’آئین نو‘‘ میں بھی اس پر بات جاری رہے گی۔





.
تازہ ترین